ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
ہماری بیٹی ایک محفل کا احوال سنا رہی تھی جہاں مختلف قومیتوں، مختلف مذاہب کے لوگ موجود تھے۔ کسی بات کی بحث کے دوران ایک نے میری بیٹی سے مخاطب ہو کے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ تم مسلمان مذہبی احساس برتری کے مارے لوگ ہو اور ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہو کہ ہم تو سیدھا جہنم کا مال ہیں، چاہے ہم جتنے چاہیں نیکی کے کام کر لیں، ہمارا ٹھکانا جہنم ہی ہو گا اور جنت تو تخلیق ہی تم لوگوں کے لئے ہوئی ہے اور برے سے برا بندہ بھی جنت میں جائے گا کہ بلآخر معاف کر دیا جائے گا۔ ہماری بیٹی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اور شاید ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔
جیسنڈا آرڈن کو سراہنے والوں میں وہ سب مذہبی پرچاریے شامل ہیں جو عورت کو خدا کی مخلوق تو مانتے ہیں مگر یہ مخلوق ویسے ہی احساسات، جذبات اور حقوق رکھتی ہے، یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کے نزدیک عورت کا کام بستر میں ان کا دل بہلانا، سال بہ سال اسلام کے سپاہیوں میں اضافہ کرنا اور روزانہ کی بنیاد پہ ان کی خدمت کر کے جنت کمانا ہے۔ ہم اکثر سوشل میڈیا پہ جنتی بیویوں کی نشانیاں پڑھتے اور سننتے ہیں۔ ہاں جنتی شوہر کی علامات جاننے کی کوئی ضرورت نہیں، مسلمان مرد اور پھر شوہر، سیدھا جنتی ہی تو ہے۔
اور اگر کوئی عورت ذکر کر دے کہ مرد اور عورت میں کوئی زیادہ فرق نہیں سوائے Y کروموسوم کے، تو اول تو سائنس پڑھنا ہی شیطانی کام ہے اور ایسا بیان عورت کے منہ سے توبہ توبہ، ضرور یہ عورت لا دین ہے بے شک کلمہ گو ہے پر منکر ہو چکی ہے کہ اسلام تو مردوں کو برتر قرار دے چکا ہے۔
اب آپ جیسنڈا کو کس خانے میں فٹ کریں گے۔ عورت اور وہ بھی دہریہ اور مرے پہ سو درے کوئی معاشرتی پابندی بھی اپنی ذات پہ لاگو کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان پیمانوں کے مطابق تو وہ قابل گردن زنی ہے۔
مگر ٹھہریے، وہی تو ہے جو باہر نکلی ہے، وہی تو ہے جو آپ کے ساتھ رو رہی ہے، وہی تو ہے جو آپ کو اپنا قرار دے رہی ہے، جو آپ کو لپٹا رہی ہے اور آپ لپٹ بھی رہے ہیں، جو پارلیمنٹ کا خطاب سلام سے شروع کر رہی ہے، وہی تو ہے جو آپ کے نزدیک جہنمیوں کو اذان سنوا رہی ہے۔ جو ملک کی ایک فیصد آبادی کی خاطر ملکی قوانین تبدیل کر وا رہی ہے۔
کیوں کر رہی ہے ایسا؟ کہیں بے چاری مسلمانوں سے متاثر تو نہیں ہو گئی۔ شاید بیچاری ہمارے مذہب کی حقانیت پہ یقین لے آئی ہے۔ اسی لئے یار لوگ اس کی تسلی وتشفی کے درمیان اپنی تبلیغی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دکھ اور غم کی گھڑی اپنی جگہ مگر جنت کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، موقع محل ہو نہ ہو۔
یاد رکھیے، جیسنڈا کا شعوری انتخاب لادینیت ہے۔ جیسنڈا آزادی اور لامحدود آزادی پہ نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ عمل بھی کرتی ہے۔ اسی لئے وہ بن بیاہی ماں بھی ہے۔ جب دین ہی نہیں تو کیا مشکل۔
جیسنڈا مسلمانوں کا احساس برتری سمجھنے سے قاصر ہے۔ نہیں جانتی کہ گو ان میں سے بیشتر اس مذہب کے پیروکار پیدائش کے جبر سے ہیں لیکن شروع دن سے اپنے آپ کو افضل جاننا اور دوسرے مذاہب کو حقیر سمجھتے ہوئے ان کو جینے کا حق نہ دینا، سیکھ چکے ہیں۔ مغرب میں شوق سے رہنا اور ہر وقت لاحول کی گردان کرنا بھی عادات میں شامل ہے
آخر جیسنڈا اتنی متحرک کیوں ہے۔ وہ کیوں اپنے مقام سے اتر کے ماری ماری پھر رہی ہے۔ وطن عزیز سے ہی سبق پکڑے، بیان داغے، تحقیقات کا وعدہ کرے اور بھنگ پی کے سو جائے۔ رات گئی اور بات گئی
جیسنڈا کی مشکل یہ ہے کہ وہ انسانیت کی نام لیوا ہے وہ انسان کو انسان سمجھتی ہے چاہے وہ گورا، کالا، پیلا، نیلا کوئی بھی ہو۔ اور چاہے نہ بھی ہو کہ اس کے دل میں انسان کیا، خدا کی بنائی ہوئی تمام مخلوق کا درد ہے۔ اور یہ وہی انسان ہے جس کے متعلق قران کہہ رہا ہے کہ ایک انسان کے قتل میں پوری انسانیت کا قتل ہے۔ خالق کائنات اگر سب کا تخلیق کار ہے تو ماں کو تو اپنے سارے بچے اچھے لگتے ہیں چاہے جیسے بھی ہوں
جیسنڈا کی دوسری مشکل یہ ہے کہ اس نے یہ حکمرانی لوگوں کی جان و مال کے لئے قبول کی ہے۔ اپنے ذاتی جاہ و حشم کی طلب میں نہیں۔ اور اس کی ذمہ داری میں دیے ہوئے لوگ چاہے کسی بھی خدا کو مانیں اور چاہے تو نہ مانیں، وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے۔ نظریاتی طور پہ وہ اس مملکت کی تقلید میں ہے جہاں اسلام کے بعد غیر مسلموں کو بھی مسلمانوں جیسے حقوق حاصل تھے۔ حکمران دجلہ کے کنارے پیاسے رہ جانے والے کتے کے لیے بھی اپنے آپ کوجواب دہ سمجھتے تھے۔
وہ سارے مولوی حضرات، جن کے فتوے اپنے شکم کے حجم کے مطابق نکلتے ہیں، جو کئی نسلوں سے جبہ ودستار کے تکبر میں مبتلا ہو کے خدا کی بنائی ہوئی مخلوق کی جانیں عذاب میں ڈالے ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو کسی بھی حساب کتاب سے بالاتر جانتے ہیں، جو مذہبی منافرت کے ذمہ دار ہیں، جو عورت کو ویسے ہی جہنمی مخلوق جانتے ہیں۔ وہ کیوں جیسنڈا کے ان اقدامات پہ خوش ہو ہو کے اسے اسلام ہی کی فتح گردان رہے ہیں۔ انہیں کیوں لگ رہا ہے کہ اب جیسنڈا، جو سر ڈھانپے پھر رہی ہے، کے اسلام قبول کرنے میں تھوڑا ہی وقت ہے۔
یاد رکھیے، جیسنڈا انسانیت کی داعی ہے اور انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا۔ وہ بھلے لا دین ہے مگر ایک اعلی و ارفع انسان ہے۔
اب تھوڑی دیر کے لئے منظر بدل دیجیے۔ مقام پاکستان، فائرنگ گرجا گھر اور مجرم مسلمان۔ حکمران بے نظیر بھٹو۔
کیا بے نظیر یہ سب کر سکتیں، کیا وہ کہہ پاتیں کہ وہ حفاظت نہیں کر پائیں ان لوگوں کی جو صدیوں سے اسی مٹی کی پیداوار تھے۔ کیا پارلیمنٹ میں چرچ کی سروس ہو پاتی، کیا پورے پاکستان کے مسلمان اپنے مسیحی بھائیوں کے کیے اٹھ کھڑے ہوتے، کیا گرجا گھر پہ مسلمان بھائی پہرا دیتے۔
اور فرض کیوں کریں، ہمارے پاس لاہور کے چرچ میں حملے کا واقعہ، علامہ اقبال ٹاؤ ن میں خودکش حملے کا واقعہ موجود ہے۔ اور دوسرے مذاہب کو تو چھوڑیے، ہمارے پاس اپنے کلمہ گو بھائیوں جو دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے کو مارنے کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔
کیا ہمارے حکمران جیسنڈا کے مقام کو چھو سکے؟ کیا کسی حکمران نے جا کے لوگوں کو گلے لگایا؟ کیا اپنی ذمہ داری میں کوتاہی پہ معافی مانگی؟ شکل دکھانا تو دور کی بات، کیا افسوس بھی تھا کہ نہیں؟
اور حکمرانوں کو تو چھوڑیے، پورا پاکستان جو انتہائی صوم وصلوات کے پابند مسلمانوں سے بھرا پڑا ہے، عمرے اور حج کے شوقینوں کی قطاریں لگی ہیں، کتنے باہر نکلے لوگوں کے زخموں پہ پھاہے رکھنے، دکھ بٹانے۔ کیا ہم واقعی افسردہ تھے؟ یا پھر سوچ رہے تھے خس کم جہاں پاک۔
لیکن نیوزی لینڈ کے واقعے کو تو اس سے نہیں ملایا جا سکتا نا۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔
جیسنڈا تم لادین ہو کے بھی بازی لے گئیں، پر جنت کا مت سوچنا۔ وہ ہمارا حق ہے