حسن مجتبیٰ
آٹھ مارچ کو جب دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو اسی روز سندھ کے شہر میرپور خاص کے قریب ایک کالج کی طالبہ کو ’قتل‘ کے چار دن بعد بغیر کسی مذہبی یا سماجی آخری رسومات کے چپ چاپ دفنایا جا چکا تھا۔
بے بی مری کے خاندان والے، ماں باپ، بہن بھائی تب تک خاموش رہے، جب تک مقامی صحافیوں نے اپنے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں بے بی مری کے قتل اور اس کے چپ چاپ دفنائے جانے پر رپورٹیں نشر اور شائع نہیں کیں۔ بے بی مری کے باپ نے ابتدائی طور مقامی میڈیا کو بتایا کہ کراچی سے میرپور خاص آکر بے بی مری کا تیز رو خطرناک نہر جمڑاؤ کنال میں”پانی پیتے پاؤں پھسل گیا تھا‘‘۔ بے بی مری کے بھائی نے مقامی میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ ’’بے بی مری سیلفی لیتے ہوئے نہر میں جا گری تھی۔‘‘ مقامی صحافیوں اور سول سوسائٹی نے اس واقعے کو قتل لکھا ہے۔ اگر شاہ لطیف بھٹائی آج کے دور میں زندہ ہوتے تو سوہنی کے دریا میں ڈوب جانے والی داستان کی طرح بے بی مری کی کہانی کا بھی المیاتی قصہ ضرور لکھتے۔
آٹھ مارچ کو ’’جمڑاؤ نہر میں ڈوب کر ہلاک‘‘ بتائی جانے والی بے بی مری کی ’’پراسرار حالات میں ہلاکت‘‘ اور پھر خفیہ تدفین پر ٹی وی چینلوں کی خبروں اور سول سوسائٹی کے مسلسل احتجاج کے بعد متحرک ہونے والی پولیس نے بے بی مری کی قبرکشائی کے لیے عدالت کو درخواست دی۔ قبر کشائی کے بعد حقائق سامنے آئے ہیں کہ مبینہ طور متوفی بے بی مری کو بغیر کسی کفن کے اس کے آخری بار پہنے کپڑوں میں ہی دفن کیا گیا تھا۔ بے بی مری کی لاش بستر کی دو چادروں میں لپٹی تھی۔ اکثر اوقات سندھ یا ملک کے دیگر حصوں میں نام نہاد غیرت یا کاروکاری کے نام پر قتل کی گئی خواتین کو بغیر کسی جنازے، کفن اور آخری رسومات کے ہی دفنا دیا جاتا ہے۔ لیکن میرپورخاص کی سول سوسائٹی اور شہریوں نے بے بی مری کی قبر کشائی کے بعد اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی، جس میں کئی افراد شریک تھے۔
پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پانچ افراد بے بی مری عرف صائمہ کو ’’بلیک میل‘‘ کرتے رہے تھے، جس کی وجہ سے اس نے ذہنی پریشانی میں آ کر خودکُشی کر لی۔
لیکن دو دن بعد صائمہ کے والد مولا بخش مری نے میرپورخاص پریس کلب میں پریس کانفرنس کی کہ اس کی بیٹی کو رمضان مری کے بیٹوں نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے اسے اور اس کے بیٹوں کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر وہ خاموش نہ رہے تو ان کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔
لیکن مجھے (ڈی ڈبلیو کے لیے) بے بی مری کے بھائی علی رضا نے کراچی سے فون پر بتایا کہ ’’میری بہن کو مارنے والے بااثر ہیں۔ یہی بااثر لوگ ہی اب میری بہن کے قتل کو مٹانا چاہتے ہیں۔“ جب میں نے علی رضا سے پوچھا کہ بااثر افراد کے نام کیا ہیں؟ تو اس کا ڈرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وہ اتنے بااثر ہیں کہ میں ان کے نام بھی نہیں لے سکتا، بس وہ بااثر ہیں۔ میں اب بھی ان سے خوفزدہ ہوں، وہ میرے موبائل فون بھی ٹیپ کر رہے ہیں‘‘۔
علی رضا اس کی تردید کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو بغیر کسی کفن یا آخری رسومات کے دفنایا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’باقاعدہ ہماری بہن کی خیراتہوئی (میت کا کھانا)۔ اسے ہم نے کفن دیا۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی‘‘۔
صائمہ کے خاندان والے مقامی بااثر شخص رمضان مری کے بیٹوں حسین بخش اور اس کے بھائیوں پر الزامات لگاتے ہیں کہ یہی لوگ صائمہ کے قاتل ہیں اور وہ ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”رمضان مری تفتیش اور انصاف میں رکاوٹ بنا ہوا ہے‘‘۔
رمضان مری ٹنڈو اللہ یار ضلع میں آصف علی زرداری کی زمینوں، دو شوگر مِلوں اور کاروباری امور کے مینیجر غلام قادر مری کے قریبی عزیز اور پیپلزپارٹی کے مقامی صدر ہیں۔ یہی علاقہ آصفہ بھٹو کا ممکنہ انتخابی حلقہ بھی ہے۔ یہاں آصف علی زرداری اور ان کے بچوں کے فارمز اور بنگلہ بھی ہیں۔ بے بی مری کے رمضان مری کے بیٹے حسین مری سے تعلقات بتائے جاتے ہیں۔
رمضان مری نے میری نیویارک سے ٹنڈو اللہ یار ٹیلفون پر اپنی بات چیت میں کہا کہ ’’بے بی مری کے قتل والے دن اگر میرے بیٹوں کا موبائل فون ریکارڈ ڈیٹا یہ ثابت کرے کہ وہ اس دن جائے واردات کی حدود میں تھے، تو میں کبھی بھی اپنے بیٹوں کا دفاع نہیں کروں گا۔ میں پہلے بھی پولیس کو ان کے موبائل فون سیٹوں سمیت اپنے بیٹے پیش کر چکا ہوں۔ پولیس نے انہیں کلئیر کر کے چھوڑ دیا تھا اور اب بھی مزید تفتیش کے لیے انہیں پولیس کے حوالے کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
رمضان مری نے اپنی اس بات کو دہرایا کہ بے بی مری اس کے بیٹے حسین مری سے محبت کرتی تھی اور ان کے پاس اس کے موبائل فون کے تحریری پیغامات اور گفتگو بھی ہے، جو انہوں نے پولیس کو بھی تفتیش کے لیے پیش کی تھی۔
رمضان مری کا کہنا تھا کہ ’’اس کے بیٹے کے فون پر بے بی مری کے پیغامات میں مری قبیلے کے پانچ افراد کے نام تھے، جن کے لیے بے بی مری نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ اگر میں قتل کی جاؤں تو میری موت کے ذمہ دار یہی لوگ ہوں گے۔ وہ افراد اسے بلیک میل کر رہے تھے اور انہوں نے اس کی وڈیو بھی بنائی تھی ۔‘‘۔
دوسری جانب آٹھ سے بارہ تاریخ تک صائمہ کے خاندان والوں کی سوالیہ نشان بنی خاموشی کا جواب علی رضا کے پاس یہ تھا کہ ’’ہمیں بااثر افراد کی طرف سے سنگین نتائج کے دھمکیوں پر خاموش رہنے کو کہا گیا تھا۔ ہم تب بولے جب میڈیا والوں نے بے بی کے قتل پر رپورٹیں دینا شروع کیں‘‘۔
مقامی سول سوسائٹی کے کارکن شاعرہ شمیم مری، واجد لغاری، وکیل نوشین پہوڑ، صحافی شاہد خاصخیلی اور نذیر پنوہر میرپورخاص سے بے بی مری کی ’’پراسرار موت‘‘ پر سوالات اٹھاتے ہوئے آگے بڑھے اور انہیں بھی سنگین نتائج کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ لوگ پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کا نام لیتے ہیں، جس پر اس کے وکیل بھائی کے ساتھ ان سول سوسائٹی اور میڈیا اراکین کو دھمکیاں دینے کے الزام میں پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔
شاعرہ اور سول سوسائٹی کی سرگرم رکن شمیم مری نے مجھے بتایا کہ اسے مری قبیلے سے تعلق ہونے کی وجہ سے شدید جانی دھمکیوں کا سامنا ہے لیکن وہ بے بی مری کے لیے انصاف کی جدوجہد میں کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
سول سوسائٹی اور مقامی میڈیا کے اراکین نے مجھے یہ بھی بتایا کہ پہلے دن سے جمن مری بے بی مری مقدمے کی تفتیش میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ غیر مصدقہ رپورٹیں یہ ہیں کہ خاندان والے بے بی مری کی شادی پولیس سب انسپکٹر کے ساتھ کروانے میں دلچسپی رکھتے تھے، جس کی بے بی مری مزاحمت کر رہی تھی۔
سول سوسائٹی کے سرگرم رکن واجد لغاری کا کہنا تھا کہ ’’قبرکشائی کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بے بی مری کی لاش کپڑوں میں دو چادروں میں لپٹی ہوئی تین فٹ کے کھڈے میں دفن تھی۔ کیا قبر تین فٹ کی ہوتی ہے؟‘‘۔
قبرکشائی کے بعد بے بی مری کے جسم سے نکالے گئے اجزا کو فوری طور لیبارٹری میں بھیجنے کے بجائے مقامی تھانے ’’کھان‘‘ میں تین روز تک رکھا گیا۔ واجد لغاری الزام لگاتے ہیں کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے بے بی مری کے اجزا کو لیبارٹری میں بھیجنے میں تاخیر کرنے پر رشوت وصول کی۔ واجد لغاری نے بے بی مری کے جسم کے اجزا ٹیسٹ کے لیے حکومت سندھ کے ماتحت سندھ سول سروسز ہسپتال کی بجائے اسلام آباد یا لاہور بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا یہ سندھ ہے، جہاں لیبارٹریوں میں شراب بھی شہد ثابت ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا ہاں، جہاں خون ڈبو کر پانی ہو جاتا ہے۔ جیسے بے بی مری کی جمڑاؤ میں زندہ یا مردہ ڈبوئے جانے کی کہانی، جہاں خدشات ہیں کہ وہ سرے سے ڈبوئی ہی نہیں گئی بلکہ گاؤں میں قتل کر کے اس کی لاش کو چار دن تک ٹھکانے لگا کر رکھا گیا۔
DW