بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں ہر نئی حکومت ایک نئے نظام کی بات کرتی ہے۔ نئی صبح کی نوید دیتی ہے۔ عوام میں ایک نئی امید جگاتی ہے۔مگر صرف چند ماہ بعد سب کچھ پرانی ڈگر پر چل نکلتا ہے۔ مسائل پہلے سے زیادہ گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ نئی اور پرانی حکومت میں فرق مٹنے لگتا ہے۔ اور سماج میں مایوسی کے سائے پھیلنے لگتے ہیں۔ لوگ پھرکسی نئے چہرے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک جانا پہچانا دائرہ ہے، جس میں ہم ستر سال سے گھوم رہے ہیں۔
آدم سمتھ نی اپنی شہرہ آفاق کتاب ” قوموں کی دولت ” سال 1776میں لکھی تھی۔ اس وقت اس دنیا کا نقشہ مختلف تھا۔ ایک ذہین ترین شخص ہونے کے باوجود شاید آدم سمتھ کو اندازہ تک نہیں تھا کہ دو سو سال بعد اس دنیا کا نقشہ اس کے تصوراتی نقشے سے بالکل مختلف ہوگا۔ آج اگر یہ سکاٹش ماہرمعاشیات دوبارہ پیدا ہوتوا سے یہ یقین نہ آئے کہ یہ وہی دنیا ہے ، جس کی معاشیات کے بارے میں اس نے یہ معرکہ آرا کتاب لکھی تھی۔ یہ کتاب تین سو سال تک سرمایہ داری دنیا کے کئی دانشوروں کی بائبل رہی ہے۔ سرمایہ داری کی بطور نظام نا کامی اور کئی پے درپے جھٹکوں کے باوجود آج بھی بعض حلقوں میں اس کتاب کو بائبل کی طرح ہی مقدس مانا جاتا ہے۔ قدامت پرست معاشیات دان آدم سمتھ کے بتائے ہوئے بنیادی اصولوں کو سرمایہ داری نظام کی بقا کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
اس کتاب میں پہلی بار آدم سمتھ نے آزاد معاشی منڈی کے کرداراورمقاصد پرسیرحاصل بحث کی۔ اس نے یہ سوال اٹھایا کہ کچھ ملک دوسرے ممالک سے امیر کیوں ہیں ؟ یہ اس وقت کا ایک مشکل سوال تھا۔ مگرآدم سمتھ نے اس کا آسان جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اس کی وجہ آزاد منڈی ہے۔
آزاد منڈی کے ساتھ ساتھ اس نے ” ان دیکھے ” ہاتھ کے تصور کو واضح کیا، جو آزاد منڈی میں اہم کردار رکھتا ہے۔ جب کاروباری اور تاجر پیشہ لوگوں کے ذہنوں میں طویل مدتی تصور اور منصوبہ ہوتا ہے تو وہ اس پر اپنی پوری توانائیاں خرچ کرتے ہیں۔ سمتھ اس سلسلے میں ایک قصائی کی مثال دیتا ہے۔ اگر قصائِی اپنے گاہک کو دوسرے قصائی کی نسبت خراب یا مہنگا گوشت فروخت کرتا ہے تو اس کا گاہگ دوبارہ اس کے پاس نہیں آ ئَے گا۔ ایسا کرنے سے وہ وقتی طور پر منافع تو کما سکتا ہے، لیکن اگر وہ طویل مدتی بنیادوں پر سوچے تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا مال اچھا اور قیمت مناسب ہو۔ منڈی کا یہ ” نادیدہ ہاتھ” ایک خوشحال نظام کو یقینی بناتا ہے، جس سے عوام کی اکثریت کا بھلا ہوتا ہے۔
سمتھ اعتراف کرتا ہے کہ اس نظام سے کچھ لوگ بہت ہی امیر ہو جائیں گے، اور کچھ لوگ بہت ہی زیادہ غریب۔ مگر یہ ایک پھلنے پھولنے والے معاشی نظام کے لیے ضروری ہے۔ اس کے خیال میں اس نظام کے لیے کچھ غیرمساوی اقدامات کرنا ضروری ہوتاہے ، جو ایک سماج میں آزادی کا تحفظ کرتے ہیں، اور اکثریت کو اپنے مقاصد اور مسرت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
آدم سمتھ نے یہ کتاب اس وقت کے نظریہ اور مروجہ معاشی تھیوری “نظریہ زر” کے جواب میں لکھی تھی۔ تجارتی نظریہ زر کا خیال تھا کہ معاشی نظام بیک وقت جیتنے اور ہارنے والوں کا مجموعہ ہے۔ ایک ملک کے امیر ہونے کے لیے دوسرے ملک کا غریب ہونا ضروری ہے۔ ملکوں کے پاس وسائل محدود ہیں، اور ان وسائل کو دوسرے ممالک سے بچا کر اپنے آپ تک رکھنا ضروری ہے؛ چنانچہ دوالت و وسائل کی آزادانہ نقل و حرکت نہں ہونی چاہیے۔
اس نظریے اور اصول کی وجہ سے دوسرے ممالک کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے تھے، درآمد برآمد کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ اس کے بر عکس آدم سمھ نے تجارت کے لیے سرحدیں کھولنے کی وکالت کی۔ اس نے کہا کہ تمام ملکوں کو مہنگی اشیا باہر فروخت کرنے اور سستی اشیا باہر سے خریدنے کی اجازت ہونی چاہے۔ حکومتیں آزاد تجارت کے علاوہ ان معاملات کوآزاد منڈی کے اصولوں کے مطابق چلنے دے، اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرے۔ البتہ اس کے خیال میں تعلیم اور سیکیورٹی جیسے ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ اس کے خیال میں جب حکومت تجارت اور منڈی میں مداخلت کرتی ہے تو اس سے وہ نادیدہ ہاتھ بے کار ہو جاتا ہے جو نظام میں توازن پیدا کرنے کی ضمانت دے سکتا ہے۔
آدم سمتھ کا نظریہ قدامت پرست ماہرمعاشیات اوراس قبیل کے سیاست دانوں کے اعصاب پر بلا شرکت غیر سو سال تک چھایارہا۔ یہاں تک کہ1867 میں کارل مارکس داس کیپیٹل جیسی معرکہ آرا کتاب لے کر میدان میں اترا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن برلن میں چھپا جس نے دنیا کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ کارل مارکس نے سرمایہ داری نظام کا نظریہ، اس کے نشیب وفراز، رحجانات اور اورخود شکستگی کے رحجانات کی وضاحت کی۔ اس نے فلسفے پر ریڈیکل تنقید کی۔ اس نے ہیگل اور اس کے بعد کے فلاسفہ پر سولات اٹھائے۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ فلسفے کو زندگی کی حقیقت بننا چاہیے۔ اور دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اصل مسئلہ اس کو بدلنا ہے۔
تاریخی مادیت کے باب میں اس نے ہیگل اور آدم سمتھ کے نظریات کی درست تاریخی تناظر میں پیش کیا۔ اور اس اس طرح اس نے جدید معاشی نظام کے معاشی قوانین کو کھول کر بیان کیا۔ سال1914 سے پہلے دنیا کی کئی سوشلسٹ تحریکوں نے مارکسزم کو اپنے اپنے انداز میں سمجھنے اور اس پر عمل کی کوشش کی۔ مگر اس کا ایک بھرپور اظہار1917کے سوویت انقلاب کی شکل میں لینن کی قیادت میں ہوا، جس کو بعد میں جوزف سٹالن نے اپنے ڈھنگ میں بدل کر نافذ کیا۔ لیون ٹراٹسکی نے سٹالن کے برعکس مارکسزم کا بالکل الگ روپ اجاگر کیا۔ موزے تنگ اور کم ال سنگ جیسے رہنماوں نے اس کا چینی اور کورین ماڈل تراشا۔ مگر سوشلزم کو تخلیقی انداز میں سکنڈے نیویا نے سمجھا اور اس کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے اپنے ملکوں میں اپنایا۔
آج بھی سکنڈے نیویا کی یہ ریاستیں انتہائی کامیاب انسانی سماج کا ماڈل ہیں۔ یہ وہی ماڈل ہے جس سے ہمارے وزیر اعظم بھی متاثر ہیں، اور انہوں نے بار بار اس ماڈل کی تعریف کی اور اس کو پاکستان میں اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر پاکستان مختلف نظاموں کو پرکھنے یا انہیں نافذ کرنے کے لیے ایک مشکل جگہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختصر تاریخ میں یہاں ہر طرح کا تجربہ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں سرمایہ داری، سوشلزم اور اسلام کا تجربہ ہوا۔ مگر ان نظاموں کے سچے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک جھوٹا تجربہ تھا۔ حالاں کہ جو سرمایہ دارانہ نظام ہم نے اپنایا وہ آدم سمتھ کے نظریات پر ہی مبنی تھا۔ دنیا میں درجنوں ملکوں نے اس کو نافذ کیا اور تیز رفتاری سے ترقی کی کئی سیڑھاں پھلانگ کر خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن گئے۔ مگر ہمارے ہاں اس نظام کے دامن سے بھوک، ننگ اور بے روزگاری کے سوا کچھ برآمد نہ ہوا۔ سوشلزم کا حشر بھی ہم نے اس سے مختلف نہیں کیا۔ دو چار ملیں اور فیکٹریاںچھین کر ہم نے سمجھا کہ اب اس سر زمین پر کوئی بھوکا ننگا نہیں رہے گا۔ مگر نتیجہ اس کے الٹ نکلا۔ نظام اسلام کا ہم نے اس سے بھی برا حشر کیا۔ نفاز اسلام کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں پیٹا گیا۔ مگر اپنے کراداروعمل سے ہم نے جو تصویر پیش کی وہ اس کا الٹ تھی۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نظام و نظریات کے بغیر قوموں و ملکوں کا کاروبار نہیں چلتا۔ مگر نظام و نظریات کے ساتھ انسانوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو اس نظام کو نافذ کرنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہوں، اور جن کے پاس نظام کی باریکیوں کی فہم ہو۔ ایسے انسانوں کے بغیر دنیا کا عظیم ترین نظام اور اعلی ترین سائںسی نظریہ بھی جلد یا بدیر ناکامی سے ہی دوچار ہوتا ہے۔ نئے نظام کے لیے نئے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے کندھے ماضی کے بوجھ سے آزاد ہوں۔
♦