حبیب شیخ
سنہ1948 میں فلسطینیوں کے جبری انخلا کی یاد میں منائے جانے والے دن النكبۃ (15 مئی) کے نام
دو دن سے قلقیلیہ میں کرفیو عائد تھا۔ عبدالعزیز نے دوسرے روز شام کو کلثوم اور دونوں بچّوں کے ساتھ کھانا کھایا اور سوچ میں پڑ گیا کہ چڑیا گھر میں اس کے دوسرے بچّے دو دن سے بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہوں گے۔ اس کو ہر صورت میں چڑیا گھر پہنچنا ہے۔ اگلی صبح پو پھوٹنے سے پہلے ہی کلثوم کو بتاۓ بغیر وہ گھر سے نکل گیا۔ اس کو پتہ تھا کہ اگر کسی فوجی نے دیکھ لیا تواس کو وہیں گولی مار دی جاۓگی۔ لیکن آج وہ چڑیا گھر ضرور جاۓ گا پچھلی گلیوں سے چھپتے چھپاتے۔
اس چڑیا گھر کی اہمیت اس لئے زیادہ تھی کیونکہ قلقیلیہ ایک مقبوضہ شہر تھا ۔ آۓ دن لوگوں اور قابض فوج کے درمیان لڑائی جھگڑا رہتا۔ فوج نے شہریوں کی آمدورفت کو قابو میں کرنے کے لیے کئی چوکیاں بناڈالیں۔ عام لوگوں کی زندگی بہت سخت تھی اور بہتری کے مواقعے نہ ہونے کے برابر تھے ۔ ایسے حالات میں ایک صاف ستھرے خوبصورت چڑیا گھر کا ہونا قدرے اہمیت کا حامل تھا ۔ عبدالعزیز کی زندگی تو چڑیا گھر سے جڑ کر رہ گئی تھی ۔ شاید اس کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ ان جانوروں کی دیکھ بھال کرے جو روزانہ ہزاروں دکھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لے کر آتے تھے ۔
جب فوج نے لوگوں کی نقل وحرکت پر مزید قابو پانے کے لۓ قلقیلیہ کے تین اطراف ایک اونچی دیوار بنانے کا فیصلہ کیا تو شہریوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ فوج نے کئی مرتبہ آنسو گیس استعمال کی جس سے کچھ جانور مر گئے اور کچھ بیمار ہو گئے ۔ عبدالعزیز بہت غمگین ہو گیا تھا ۔ اسے ان جانوروں کے مرنے اور بیمار ہونے کا دکھ ایسا تھا جیسے یہ قیامت اس کے اہل خانہ پر آگئی تھی ۔ جب کرفیو لگتا تو اس دوران بھی وہ موت کو ہتھیلی پر رکھ کر پچھلی گلیوں سے چھپ چھپا کر چڑیا گھر پہنچ جاتا اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ۔
کچھ عرصہ بعد فوج نے قلقیلیہ کے تین اطراف آٹھ میٹر اونچی دیوار کی تعمیر شروع کر دی ۔ اس دیوار میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نشانہ باز فوجیوں کے لیے مینار بھی بنائے گئے جو دیوار سے بھی زیادہ بلند تھے ۔ اس دیوار نے زرعی علاقے کو بھی شہر سے الگ کر دیا ۔ عبدالعزیز کی بھی کچھ زرعی زمین تھی جس سے وہ ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ دیوار کے دوسری طرف جانا اب ممکن نہیں تھا ۔ جب یہ مکمل ہو گئی تو اتنی اونچی دیوار دیکھ کر عبدالعزیز کا دم گھٹنے لگتا اور اسے اپنے زیتون کے درختوں کی یاد بری طرح ستاتی۔
دیوار کی تکمیل کے بعد کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے دیوار سے پیدا شدہ مسائل کی تفتیش کے لئے شہر آنا شروع کر دیا ۔ اب عبدالعزیز کو محسوس ہوتا کہ وہ اپنے چڑیا گھر کے جانوروں کی طرح ایک پنجرے میں بند ہے اور یہ لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ایک دن جب آسمان سلیٹی رنگ کے بادلوں سے چھپا ہوا تھا ویسا ہی رنگ جو آٹھ میٹر اونچی دیوار کا رنگ تھا، عبدالعزیز کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اوپر نیچے دائیں بائیں ہر طرف سے محسور ہے۔ سخت بجلی کڑک رہی تھی اور موسلادھار بارش شروع ہو گئی تھی ۔ عبدالعزیز نے تیزی سے دیوار کی طرف بھاگنا شروع کر دیا کہ آج وہ اس کو گرا کر پنجرے سے باہر نکل جائے گا ۔
ادھردیوار سے بھی بلند مینار میں بیٹھا ہوا فوجی حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کون دیوانہ یا دہشتگرد ہے جو دیوار کی جانب اس تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا ہے ۔ اس کا دایاں ہاتھ مشین گن کی لبلبی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
♦