آمنہ اختر
ابھی رمضان کا مہینہ چل رہا ہے اور ٹی وی کے پروگرامز ہوں یا ابلاغ کا کوئی اور ذریعہ وہاں بیشمار مولانا حضرات آمنے سامنے نشستیں لگائے بیٹھے ہیں ۔بجائے عوام کی معاشی بدحالی کی روک تھام پر گفتگو ہو وہ سواے اخلاقیات کے پہلو کے کسی اور مسئلے کو نہ اہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا علم ہے جس سے وہ ملک کے اور عوام کے مسائل کو کوئی واضح حل دے سکیں ۔
پاکستان میں غربت اور ملا ازم اس قدر ہے کہ غربت نے انسان کو ننگا اور بھوکا کیا ہے تو ملا ازم نے لوگوں سے ان کی عقل و شعور چھین لیا ہے ۔غالبا پاکستان پر کوئی جادو کی سی صورت حال ہے کہ لوگ چل پھر رہے ہیں ۔مگر محسوس نہیں کر سکتے ۔ پاکستان کی حکومت اسلامی ہے مگر اسلام کی ایک قوم کے بجائے بہت سی مسلم قومیں آباد ہیں ۔ جو ہما وقت بہتر مسلمان پیدا کرنے کا دعوہ بھی کرتی ہیں۔
اخلاقیات کے مطابق زندگی گزارنے کی گرما گرم بحثیں ہو تورہی ہیں۔مگر ان میں سے زیادہ تر کا موضوع والدین کا احترام ،حلال رزق اور میاں بیوی کے حقوق پر مبنی ہیں ۔اور ان پر تبصرے کرنے والے اس بات سے بے خبر ہیں یا ان کو اس بات کا شعور ہے ہی نہیں کہ والدین کو صرف احترام سے جواب دے دینا یا سن لینا ہی ان کے صحت ،خوراک ،رہائش و آرام کی ضروریات کو پورا نہیں کر دیتا۔
پھر حلال رزق پر باتیں مولانا حضرات ایسے فرما رہے ہیں جیسے خود یہ مولانا حضرات محنت مزدوری سے کما کر کھاتے ہیں اور مزدور کے کام کے اوقات کار اور تنخواہیں بہتر کروانے کے لئے حکومت کو تجاویزات بھی پیش کرتے ہیں۔مزدور کے تمام مسائل کو جانتے ہیں اور مزدور تنطیموں کو مدد بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ ملک میں نہ صرف بےروزگاری ختم ہو بلکہ مزدور کا معیار زندگی بہتر ہو۔
اور جہاں تک میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کی بات ہے اس میں بھی معاشی صورت حال کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں بس مرد کو عورت گھر میں نظر آئے یا بستر پر اس بات پر زور زیادہ ہے اور میان بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ان مین سے کس کو کس وقت زیادہ گھسنا چاہیے یہ علما حضرات سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔غالبا خیالی کہانیاں مولانا کا ایک گروپ دوسرے گروپ کو سناتا ہے اور بحث کے بعد روزہ افطاری کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ۔اور دعا میں پھر بھی زیادہ زور بہتر مسلمان بننے پر ہی ہے ۔یعنی چودہ سو سال ہونے کو آئے اور ابھی تک ایک مسلمان صحیح مسلمان نہیں بنا۔ تو ملک کیسے ایک صحیح مسلم ملک بن پائے گا ۔
خیر یہ سب باتیں ایک طرف مگر اخلاقیات کے اندر نہ کسی فری ہسپتال ،فری ٹرانسپورٹ ،فری بجلی و پانی خوراک کی دستیابی ،غرض کسی انسانی بنیادی ضرورت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اور نہ ہی روزگار اور مسلم مزدور لوگوں کی تنخواہوں پر کوئی بات ہوتی ہے ۔صرف اخلاقیات سے سب کچھ درست کرنا ہے مگر اخلاقیات میں معاشیات ، سماجیات اور ماحولیات سب پس پشت ڈال کر لوگوں کو اپنی داڑھیاں ،عبائے اور پرورش قسم کی باتوں سے محظوظ کروا رہے ہیں ۔
سوال تو یہ ہے کہ مذہب صرف اخلاقیات کے لئے ہے یا ملک کومعاشی ،سماجی اور بین لااقوامی طور پر مستحکم بنانے کا کام بھی مذہب کے ذمے ہے۔اگر ہے تو مدرسوں کو ریاضی ،سائنس اور دیناوی جدید علوم سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ ان حضرات کو ملک اور اس کے شہریوں کے مسائل کو کس طرح سے حل کرنا ہے اس کی سمجھ بوجھ بھی آئے ۔
حکومت اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ مذہب کے مطابق ملک چلانا چاہتے ہیں یا انسانی ضروریات کے مطابق تاکہ ہر پاکستانی کو وہ تمام بنیادی سہولیات مل سکیں جن کے استعمال کے بعد وہ رشوت خوری ،چوری اور دوسرے مجرمانہ حرکات سے باز آ سکیں ۔ ورنہ اخلاقیات تو پاکستان میں اس قدر اور بڑے عرصے سے بتائی اور پڑھائی جا رہی ہیں کہ اب یہ بے اثر ہو گی ہیں ۔ پورا معاشرہ اب برائی کو برائی کی نظر سے دیکھ ہی نہیں رہا ۔
مذہب کو صرف اخلاقیات کے مضمون کا درجہ دیا جائے جس کا دل کرے وہ اس کو اپنی رہنمائی کے لئے استعمال کرے اور جس کا دل نہ چاہے وہ ریاست یا مذہب کے خوف سے بالاتر ہو کر اپنی تعلیم یا شعوری کوشش سے ملکی اور انفرادی ترقی کی راہیں اپنے اور ملک کے لیے ہم وار کر سکےاور پاکستان کو بحیثیت ایک ملک کےپھلنے پھولنے کا موقع ملے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف اپنے ملک کو سنبھالیں بلکہ جدید دنیا کے ساتھ چل سکیں۔
♦