ڈاکٹر مجیب الرحمان
بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سندھ کے ہسپتال سندھ حکومت سے چھین کر وفاقی حکومت کے حوالے کر دیئے ہیں ۔ اور اس میں سپریم کورٹ کا ریفرنس دیا گیا ہے ۔ پر میری نظر میں یہ فیصلہ سیاسی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت اپنے ادارے چلانے کے لیئے خود مختار ہے اور وہ جیسے چاہے وہ کر سکتا ہے ۔ پر شاید اوپر والی سرکار کو یہ بات پسند نہیں ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت اپنے ادارے چلانے کے لیئے خود مختار ہے اور وہ جیسے چاہے وہ کر سکتا ہے ۔ پر شاید اوپر والی سرکار کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ پچھلے 5 سالوں میں کسی صوبے میں دل کے اتنے ہسپتال نہیں بنے جتنے سندھ حکومت نے بنائے اور یہ انقلابی قدم ڈاکٹر ندیم قمر کے زیر نگرانی ہوا۔ آج بھی این آئی وی ڈی ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے۔ 10 روپے سے لیکر 20 لاکھ تک کا خرچہ یہ ادارہ خود افورڈ کرتا ہے۔
ممکن ہے کچھ دوست میری اس بات سے اتفاق نہ کریں، اور اس فیصلے کی حمایت کریں کہ سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں کونسا اچھا کام کیا ہے ، لہذا درست فیصلہ ہوا کہ یہ وفاقی حکومت کے پاس جائے۔ ان کو اختلاف کا حق ہے۔ پر اب جو لوگوں کو مفت علاج میسر تھا، اب نہیں رہیگا کیوں کہ تحریک انصاف حکومت پنجاب اور کے پی کے کی طرح ان تین بڑے ہسپتالوں کی نجکاری کرے گی جس سے علاج مہنگا ہوگا اور ہر غریب کے لیئے علاج آسان نہیں ہوگا ۔
اس فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صحت کے حوالے سے بلاول بھٹو الیکشن سے پہلے اور اب تک بار بار یہ کہتے آئے ہیں کہ تحریک انصاف نے کیا کیا ہے ، کونسے ہسپتال بنائے ہیں، ہم نے تو سندھ میں دل کے 8 نئے ہسپتال بنائے ہیں،حتیٰ کہ اسی سسٹم کا ایک دل کا ہسپتال تھرپارکر میں بھی بنایا گیا ہے جو بہترین کام کر رہا ہے ۔ شاید یہ بات سیاسی پوانٹ اسکورنگ تحریک انصاف اور بڑی سرکار کو پسند نہیں آئی اور فیصلہ کیا گیا کہ یہ تینوں بڑے ہسپتال سندھ حکومت سے واپس لیے جائیں تا کہ بلاول اس پر سیاست نہ کریں۔
سوال یہ ہے کہ جب سندھ حکومت نے ان تین اداروں کو بہتر کیا ہے، دل کے 8 نئے جدید ہسپتال بنائے ہیں ، اور سندھ حکومت نے اپنے پیسے لگائے ہیں تو تحریک انصاف حکومت کو کیا تکلیف اور کیوں ہو رہی ہے؟ وہ یہ ہسپتال کیوں چھیننا چاہتا ہے؟؟
مریضوں کے لیئے علاج مہنگا ہونے کے علاوہ ایک مسئلہ اور بھی کھڑا ہوگا کہ فیکلٹی ڈاکٹرز جو اس وقت سندھ حکومت کے ملازم ہیں، وہ کہاں جائیں گے اور کیسے اکاموڈیٹ ہونگے۔
اس کے علاوہ سندھ کے لوگوں کے لیے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے ان ہسپتالوں میں سندھ کے مختلف شہروں سے آنے والے ڈاکٹرز ایف سی پی ایس ، ایم سی پی ایس اور ڈپلومہ کی ٹریننگ کر سکتے ہیں۔ یہ ہسپتال وفاق کے پاس جانے کے بعد ایک بات یہ ہوگی کہ بہت سے سندھی ڈاکٹرز کو ان بہترین سرکاری ہسپتالوں میں تریننگ کی سیٹ نہ مل سکے۔
دیکھا جائے تو کراچی میں سندھ حکومت کے پاس ان تین بڑے ہسپتالوں کے علاوہ اور کیا ہے۔ نیشل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ، نیشل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیزز اور جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سینٹر۔ ایک سول ہسپتال پچتا ہے باقی۔
تحریک انصاف وفاق کی مرکزی حکومت میں ہے۔ اس کو چاہیئے کہ وہ کراچی کو بڑا پیکیج دے اور اس طرح کے نئے ہسپتال بنائے اور وہ وفاق اپنے پاس رکھے۔ پر تحریک انصاف نے جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہی بڑے ہسپتال نہیں بنائے تو سندھ میں کیسے بنائیگی جہاں ان کی حکومت ہی نہیں۔ تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں پچھلے پانچ سالوں میں کیا کیا ہے ؟؟ کیا ایک بھی جے پی ایم سی ، این آئی وی ڈی یا این آئی ایچ جیسا ادارا بنایا ہے؟؟
خیبر پختون خوا کے اپنے ڈاکٹرز ایک ہفتے سے تحریک انصاف حکومت کے خلاف احتجاج پر ہیں کہ حکومت سرکاری ہسپتالوں کی آئی ایم ایف کے دباؤ پر نجکاری کر رہی ہے. جس سے علاج مہنگا ہو گیا ہے.۔ایم ٹی آئی ایکٹ کے بعد پرچی فیس سے لیکر، انویسٹیگیشنز، الٹراساؤنڈ، آپریشن کا سامان مہنگا ہو گیا ہے۔ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ تو آپ سب کو معلوم ہے۔ کچھ دوائیوں کی قیمت 200 سے 300 فیصد بڑھ گئی ہے۔
لگتا تو ایسا ہے کہ تحریک انصاف حکومت سندھ کے ان تین بڑے ہسپتالوں کا حشر بھی وہی کرے گی جو انہوں نے بی آر ٹی میٹرو پشاور کا حشر کیا ہے. اس 9 ماہ کے ٹا ئم پیریڈ میں تحریک انصاف حکومت کی کوئی ایک بھی کامیابی ہو تو ہم یقین کریں کہ یہ کوئی ڈھنگ کا کام کرینگے اور کراچی کے ان تین انتہائی اہم ہسپتالوں کا اسٹینڈرڈ برقرار رکھیں گے۔
کے پی کے ینگ اور سینیئر ڈاکٹرز جو تحریک انصاف کے ماضی میں سب سے بڑے سپورٹرز رہے ہیں وہ صحت کے شعبے میں حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ان کے سخت خلاف ہو گئے ہیں.۔اس اہم ایشو پر سندھ کے اسٹیک ہولڈرز جیسے سندھ حکومت، پی پی ، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سندھ ، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر اور سندھ کے قانون دانوں کو اپنا واضح موقف اختیار کرنا چاہیئے اور سندھ حکومت کو چاہیئے کہ اس مسئلے پر عدالت کا دروازہ کھٹکٹائے۔
♥