پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں مسیحی برادری کے قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
اوکاڑہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 10 میں واقع سینٹ اینتھونی چرچ سے ملحقہ مسیحی قبرستان میں قبروں پر نصب صلیب توڑے گئے ہیں۔ یہ واقعہ رواں ماہ کی 11 اور 12 تاریخ کی درمیانی شب پیش آیا تھا۔
سینٹ اینتھونی چرچ کے پادری فادر جیمز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس قبرستان میں 20 سے زائد قبروں پر نصب صلیبیں گرا دی گئی تھیں۔ ہمیں اگلے روز پتہ چلا۔ ابھی ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ایسا کس نے کیا ہے۔‘
مسیحی قبرستان میں تقریباً ہر قبر کے سرہانے صلیب کا نشان کتبے کے ساتھ نصب ہوتا ہے جسے قبر کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ فادر جیمز بہادر کا کہنا تھا کہ یہ قبرستان چھ ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط تھا جس میں سینکڑوں قبریں تھیں۔انھوں نے کہ اس حوالے سے کسی مخصوص فرد یا گروہ پر شک نہیں ہے اور واقع کی اطلاع مقامی پولیس کو دے دی گئی تھی۔
اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اطہر اسماعیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوکاڑہ کے کینٹ تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔تاہم یہ تاحال معلوم نہیں ہو سکا کہ اس واقعہ میں کون لوگ ملوث ہیں اور ان کا مقصد کیا تھا۔
ڈی پی او اطہر اسماعیل کا کہنا تھا کہ ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں جس میں سی سی ٹی وی کیمروں سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔اطہر اسماعیل کہتے ہیں کہ بظاہر ’یہ شر پسند عناصر کی شرارت ہو سکتی ہے جن کا مقصد فساد پھیلانا ہو سکتا ہے، مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں پائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ چک نمبر 10 میں مسیحی برادری کی اکثریت ہے اور وہاں مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں آباد ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد مسیحی برادری کے پادریوں اور مقامی مساجد کے پیش اماموں نے اکٹھے ہو کر اس واقعہ کی مذمت کی تھی۔
’واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی اور مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف اوکاڑہ کے تھانہ کینٹ میں درج کر لیا گیا تھا جس میں صلیب کی توہین کرنے کے حوالے سے دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔‘
اطہر اسماعیل کا کہنا تھا کہ مسیحی برادری کے مقامی سربراہان نے کسی پر شبہے کا اظہار نہیں کیا۔
’ان کا بھی یہ گمان تھا کہ یہ کسی کی شرارت ہو سکتی ہے جس کا مقصد فساد پھیلانا ہو سکتا ہے۔ جلد ہی اس واقعہ کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا جائے گا‘۔
تاہم دوسری جانب چک نمبر 10 سے تقریباً دو سے اڑھائی کلومیٹر دور ایک اور گاؤں چک نمبر 3 واقع ہے جس میں مسلمانوں اور مسیحی برادری کے افراد کی آبادی کا تناسب تقریباً برابر ہے۔چک نمبر 3 کی مسیحی آبادی کے افراد بھی چک نمبر 10 میں اپنے مردے دفناتے ہیں۔
قبروں کی بے حرمتی کے واقعہ سے چند روز قبل چک نمبر تین میں چرچ کے لیے وقف زمین پر چرچ تعمیر کرنے کی کوشش پر مقامی مسلم برادری کے افراد نے مسیحی برادری کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے چک نمبر تین کے رہائشی قیصر پرویز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسے ہی انھوں نے چرچ کا سنگِ بنیاد رکھنا شروع کیا تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ (مسلم برادری کے لوگ) آ گئے اور انہوں نے دیواریں گرا دیں اور زمین پر ہل چلا دیا‘۔
قیصر پرویز کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دونوں گروہوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوا۔ ’مقامی مسلم آبادی کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ یہاں چرچ نہیں بننے دیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا یہ سلسلہ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری ہے۔ ’جب بھی مسیحی برادری چرچ تعمیر کرنے کی کوشش کرتی ہے، مسلم لوگ جھگڑا کر کے انہیں روک دیتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ چرچ اور اس کے ساتھ ملحقہ لڑکیوں کے سکول کے لیے زمین اکبر مسیح نامی ایک زمین دار نے عطیہ کی تھی، تاہم مسیحی برادری اس پر چرچ تعمیر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
’اس حوالے سے عدالت میں مقدمہ بھی چل رہا ہے مگر اس کا بھی فیصلہ نہیں ہو پایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعہ کی اطلاع بھی پولیس میں دی گئی تھی تاہم اس پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
بظاہر دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نظر نہیں آتا، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس زاویے سے بھی تحقیقات کر رہے ہیں تاہم ابھی تک ان واقعات کے ردِ عمل میں کوئی بد امنی کا واقعہ سامنے نہیں آیا۔
BBC