لیاقت علی
تئیس مئی کو بھارت کی 17ویں لوک سبھا کے الیکشن کے نتائج کا اعلان کردیا گیا۔ ان نتائج کے مطابق نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادی 350 سے زائد نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں جب کہ کانگریس اور اس کے اتحادی صرف 100 کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ سب سے بڑا دھچکا کمیونسٹ پارٹیوں کو پہنچا ہے جو 542 کے ایوان میں محض پانچ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔
کیا وجوہات اور محرکات تھے جن کی بدولت کمیونسٹ پارٹیوں کی انتخابی کارکردگی اس قدر خراب اور مایوس کن رہی۔اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے خاص طور ہر ہمارے ہاں تو اور بھی ضروری ہے جہاں لیفٹ اور کمیونسٹ سیاست کی صورت حال ہر حوالے سے انتہائی پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ہے۔
بھارت کی آزادی کے بعد 1952 میں جو پہلے الیکشن ہوئے تھے اس میں کمیونسٹ پارٹی لوک سبھا میں کانگریس کے بعد دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی تھی اوراس کا بھارت کی عوامی اور پارلیمانی سیاست میں اہم اورموثررول تھالیکن پھرآہستہ آہستہ کمیونسٹ پارٹی شمالی بھارت کی ان ریاستوں جنھیں کائو بیلٹ کہا جاتا ہے ، میں اپنی عوامی حمایت اور پارلیمانی قوت سے محروم ہوتی چلی گئی۔
پنجاب جوایک وقت میں کمیونسٹ پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھاوہاں پارٹی محض نام کی حد تک رہ گئی۔ شمالی ہند سے بتدریج ختم ہونے کے باوجود پارٹی نے جنوبی ہند بالخصوص کیرالہ،مغربی بنگال اورتری پورہ میں تنظیمی اعتبار سے اور عوامی حمایت کے حوالے سے خود کو مضبوط اورطاقتوربنایا کیا اوران ریاستوں کو پارٹی کے طاقتوراور حکومتی جور توڑ کے حوالے سےفیصلہ کن مراکزسمجھا جانے لگا۔
پارٹی نے پہلی دفعہ 1956 میں نمودری پد کی قیادت میں کیرالہ میں الیکشن جیت کر ریاستی حکومت تشکیل دی تھی۔ یہ دنیا کی کمیونسٹ تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ تھا کہ کوئی کمیونسٹ پارٹی جمہوری الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ کیرالہ کےموجودہ سماجی اورمعاشی اشاریے کمیونسٹ پارٹی کی یکے بعد دیگرے بننے والی ریاستی حکومتوں کی عوام دوست پالیسوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو پہلااوراہم ترین دھچکا 1964 میں اس وقت پہنچا جب پارٹی روس چین کے حوالے سے دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ کمیونسٹ آف انڈیا نے پرو سوویت یونین لائن اختیار کی جب کہ علیحدہ ہونے والوں نے جوخود کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ)کہلاتے تھے، پرو چین سیاسی لائن کو اپنایا تھا۔
سی پی آئی ( ایم) شمالی ہند کی نسبت کیرالہ، مغربی بنگال اور تری پورہ میں نسبتا زیادہ مضبوط اور طاقتور تھی اس لئے ان ریاستوں میں تشکیل پانے والی حکومتوں میں اس کا رول ہمیشہ رہنمایانہ رہا۔ کیرالہ ہو یا مغربی بنگال اور تری پورہ وزیراعلی کا تعلق ہمیشہ سی پی آئی( ایم) سے رہا گو سی پی آئی اور دو تین اور لیفٹ پارٹیاں بھی لیفٹ الائنس میں شامل رہیں۔
مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ نے 34 سال( 1977-2001 ) جیوتی باسو کی قیادت میں حکومت کی لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنے عرصے تک حکومت کرنے والی سیاسی جماعت کو موجودہ الیکشن میں لوک سبھا کی ایک نشست بھی حاصل نہیں ہوسکی اور اس کا ووٹ بنک جو 2014 میں 23 فی صد تھا کم ہوکر 2019 میں 7 فی صد رہ گیا ہے۔
اتنا عرصہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت رہنے کے باوجود بنیاد پرست ہندو نظریات کی حامل بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ پارٹی تعلیمی اور ثقافی محاذ وں رجعتی نظریات کے متحرک کردار ادا کرنے میں ناکام رہی؟ پارٹی صدیوں پرانے مذہبی عقائد اور سماجی اور ثقافتی تعصبات کا توڑ کرنے میں ناکام رہی اور ایسی پالیسوں کا نفاذ ممکن نہ بنا سکی جو عوام کے اذہان کو روشن خیالی اور سماجی ہمہ گیریت سے ہم آہنگ کرتیں۔
سی پی آئی کے امیدوار اس الیکشن میں رنر اپ بھی نہیں ہیں بلکہ وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔پارٹی نے مغربی بنگال میں کانگریس کے مقابل نو کنٹسٹ پالیسی اختیار کی لیکن کانگریس کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ بھی مغربی بنگال میں بری طرح ہار گئی۔ پارٹی نے کانگریس کانگریس نے کمیونسٹ پارٹی کو اس فیصلے کا مثبت جواب دینے کی بجائے کیرالہ میں ہر نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کردیا اور بیس میں سے انیس نشستیں جیت لیں جب کہ کمیونسٹ پارٹی اپنے اس انتہائی طاقتور مرکز سے جہاں ریاستی حکومت بھی اس کی اپنی ہے صرف ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔
♦