تبصرہ:لیاقت علی
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
چیرا تو فقط اک قطرہ خوں نکلا
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی اور وہاں پاکستانی فوج کی شکست کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ جس جوڈیشل کمیشن نے یہ رپورٹ لکھی تھی اس کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس حمود الرحمن تھے اور اس کے دوسرے دو ارکان میں بھٹو کے عدالتی قتل میں ملوث چیف جسٹس(اُس وقت) لاہور ہائی کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ اس کمیشن میں فوج کی نمائندگی لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر نے کی تھی۔
فوجی افسروں کے بیان ہوں یا پھر جج صاحبان کی آبرزوریشنز سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو بھارتی سازش قرار دینا۔ کسی نےبھی یہ نہیں کہا تھا کہ مغربی پاکستان کی فوج۔ سول بیوروکریسی اور سیاست دانوں نے مشرقی پاکستان کے عوام سے زیادتی کی اور ان کے حقوق سلب کئے تھے۔ سب مطالعہ پاکستان کے رٹے رٹائے جملے دوہراتے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور خود کو نیک پاک اور پارسا ثابت کرنے کی کوشش۔دوسرا ملزم تھا وہ تو بے گنا ہ ہے۔جتنے فوجی پیش ہوئے سب نے خود کو مجاہد اور دوسروں کو بزدل اور بھگوڑا قرار دیا تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے جنرل ضیا کو خراج عقیدت پیش کیا کہ اس نے میری پنشن اور مراعات بحال کیں۔جنرل یحییٰ خان دو پنشن لیتے تھے ایک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اور دوسری سابق صدر کی حیثیت سے۔ کمیشن نےجن جنرلز کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ جنرل گل حسن اس وقت ڈائیریکٹر جنرل ملٹری آپریشن تھے جنگی حکمت عملی بنانا ان کی ذمہ داری تھی لیکن وہ اپنے اس کام میں بری طرح ناکام رہے تھے لیکن انھیں سزا دینے کی بجائے کمانڈر ان چیف بنادیا گیا تھا۔
شیخ مجیب الرحمان کو سزا دینے کے لئے جو فوجی عدالت بنائی گئی تھی اس کے سربراہ بریگیڈئیر رحیم الدین خان تھے جو بعد ازاں جنرل ضیا کے دور مین بلوچستان کے مارشل الا ایڈمنسٹریٹر اور گورنر بھی رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمان کے وکیل اے۔کے بروہی تھی۔ اور استغاثہ کے وکیل ایم۔بی زمان اور شیخ اعجاز علی ایڈووکیٹ تھے۔یہ فیصلہ عدالت میں سنانے کی بجائے اسے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کو بھیج دیا گیا تھا اور اس کی توثیق کے بعد یہ فیصلہ فوجی عدالت نے سنانا تھا۔
کمیشن نے ان سیاسی اور سماجی اور معاشی وجوہات کا قطعا ذکر نہیں کیا جن کی بدولت بنگالی عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا اور وہاں علیحدگی کی تحریک کی ابتدا ہوئی جو بنگلہ دیشن کے قیام پر منتج ہوئی تھی۔جنرل یحییٰ خان بھی اپنے بیان میں کہتا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ وہی کلیشے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور روزاول سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
جنرل یحییٰ خان کی شراب نوشی اور عورتوں سے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اوران عورتوں کے نام درج ہیں جو مختلف اوقات میں صدر سے ملتی رہی تھیں۔ کمیشن کے فوجی رکن لیفٹینٹ جنرل الطاف قادر کے بارے میں ایک فوجی گواہ نے کہا کہ وہ شرابی اور عیاش ہے۔ ڈھاکہ کے آخری کمشنر علم داررضا نے کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ ڈھاکہ میں لڑکیوں کے ہوسٹل میں سانحہ ہوا جہاں چھاپہ مار کر لڑکیوں کی بےحرمتی کی گئی تھی۔خوبصورت بچیوں کو ایک دوسرے کی طرف اچھالا گیا تھا۔
علمدار رضا بتاتے ہیں کہ ایک واقعہ ان کے علم میں لایا گیا تھاکہ فوجی ایک گھر میں داخل ہوئےوہاں ایک نوجوان لڑکی تھی۔اس نے فوجیوں سے کہا کہ مکتی باہنی والوں نے میرے باپ اور دوسرے اہل خانہ کو قتل کردیا ہے۔میں پاکستانی ہوں۔مجھے بچانے والا کوئی نہیں۔یہ کتاب اللہ ہے۔یہی میری محافظ ہے۔لیکن آنے والوں ( فوجیوں) نےکتاب ایک طرف رکھی اور وہی کیا جو انسان حیوان بن جائے تو کرتا ہے۔
بنگلہ دیش میں شکست کے ذمہ دار کم و بیش سبھی جنرلز اپنے عہدوں پر بحال ہوئے اور انھیں ان کے اعزازات اور دیگر مراعات کے ساتھ ریٹائر کیا گیا تھا کسی ایک کے خلاف بھی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے نام سے چھپی اس کتاب میں بھرتی کا مواد بھی زیادہ ہے۔ بنگلہ دیشں میں تعنیات رہنے والے فوجی افسروں کے اخباری بیانات اورمختلف اخبارات اور رسائل کے دیئے گئے انٹرویوز کو بھی اس کتاب میں شامل کردیا گیا ہے۔
اپنی نظر بندی کے خلاف جنرل یحییٰ خان نے جو رٹ دائر کی تھی وہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ اس کتاب میں وہی مواد شامل ہے جو وقتا فوقتا ماضی میں اخبارات میں چھپتا رہا ہے۔یہ رپورٹ خاصی پھس پھسی اوراس میں ان سائٹ کی شدید کمی ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ
پبلشرز۔ دارالشعور، لاہور
♦
One Comment