ارشد بٹ
مملکت غداران پاکستان میں غداروں، ملک دشمنوں، غیر ملکی ایجنٹوں، کرپٹ اور اسلام دشمنوں کی پیداوار کسی تعطل کے بغیر جاری رہتی ہے۔ یہ زرخیز فصل کبھی قلت سے دوچار نہیں ہوتی۔ جہاں جمہوری آزادیوں، ریاست پر سول جمہوری بالادستی اور قانون و آئین کی حکمرانی کا مطالبہ طاقتور اداروں کے خلاف بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہو ، وہاں ایسے الزامات کی بھر مار ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔
اس نا ختم ہونے والی لسٹ میں تازہ اضافہ پختون تحظ موومنٹ کے نوجوان راہنماوں منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کا ہوا ہے۔ یہ تسلسل ہے اس روایت کا کہ جو سیاستدان عوام میں مقبول ہو، جو عوامی اور قومی حقوق کے لئے آواز بلند کرے، جو انسانی برابری اور معاشی انصاف کا پرچم لہرائے، تو غداری اور اسلام دشمنی کے القابات اس کا مقدر ٹھہرا۔
جس دانشور، ادیب، شاعر اور صحافی نے جبر اور استحصال کی قوتوں کو بے نقاب کیا، اسکی پیشانی پر کفر اور غیر ملکی ایجنٹی کا لیبل چپکا دیا جائے۔ جس سیاسی جماعت کی جڑیں عوام میں مضبوط ہونے لگتی ہیں، جو طبقاتی نابرابری، معاشی انصاف اور مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کے خاتمے کی بات کرتی ہو، جو فیڈریشن میں چھوٹی قومیتوں کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنائے جانے کے مطالبے پر زور دے، وہ سیاسی جماعت یا تنظیم ملک دشمنی کے الزام سے نہ بچ سکی۔ مملکت غداران میں سیاستدان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی جماعتوں کی عوام میں جڑیں پھلتی پھولتی اور مضبوط ہوتی بھلی نہیں لگتی۔
قیام پاکستان سے اب تک غداروں، غیر ملکی ایجنٹوں اور اسلام دشمنوں کی فہرست اتنی طویل کہ ایسا لگتا ہے اس دھرتی نے محب الوطن سیاستدانوں اور دانشوروں کو جنم دینا بند کر دیا ہے۔ لیاقت علی خان ان الزامات سے بال بال بچے کیونکہ وہ تو قتل ہی کر دئے گئے۔ ریاست انکے اصل قاتل اور قتل کی وجوہات کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل حق، تقسیم سے قبل سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کی قرارداد منظور کرانے والے جی۔ ایم۔ سید اور تحریک آزادی کے ہیرو پاجا خان، غداری اور غیر ملکی ایجنٹی کے اعزاز سے محروم نہ رہ سکے۔تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے متعد ساتھی بشمول حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین ریاستی اداروں کی سازشوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔
قیام پاکستان کے بعد بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرستوں کی نئی نسل ختم نہ ہونے والی غدار فہرست میں شامل ہوتی رہی۔ شیخ مجیب الرحمان، ولی خان، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، اکبر بگٹی اور اجمل خٹک کے علاوہ سینکڑوں بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرست سیاسی کارکن غداری اور اسلام دشمنی کے الزامات کی زد میں رہے۔ ناکردہ جرائم کی پاداش میں قید و بند کی سعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
انقلابی راہنما حسن ناصر، معراج محمد خان، میجر محمد اسحاق، افضل بنگش، سی آر اسلم، جام ساقی، جمال نقوی اور نذیر عباسی سال ہا سال عقوبت خانوں اور جیلوں میں ریاستی اداروں کے غیر انسانی جبر و تشدد کا شکار بنتے رہے۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض، حبیب جالب اور استاد دامن بھی ریاستی جبر اور چیرہ دستیوں سے نہ بچ پائے۔ ملکی تاریخ کے مقبول ترین عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھا کر تسلی نہ ہوئی تو انکے فرزند مرتضے بھٹو کو سر عام گولیوں سے چھلنی کرکے دل کی آگ بجھائی۔
شہید بھٹو کی دختر عوام کی مقبول راہنما بے نظیر بھٹو کی حفاظت پر معمور سیکورٹی کو ہٹا کر بے نظیر بھٹو کے قتل کی راہ ھموار کی گئی۔ نواز شریف بھی عوامی مقبولیت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ نواز شریف عوام میں مقبول ہو کر طاقتوروں کو للکارنے کی گستاخی کر بیٹھے۔ چوھدری نثار کی بات مانتے، منہ بند رکھتے اور سر جھکا کر گجرات کے چوھدریوں کی طرح اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے۔
تاریخ کا انوکھا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ عوامی ووٹوں سے اقتدار پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کب تک جمہوریت اور جمہوری اصولوں کا مذاق اڑاتے رہیں گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی سیاسی تاریخ کا لمبا چوڑا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ صرف نواز شریف کے عروج و زوال پر طائرانہ نظر ڈال لیں تو انکو اس میں اپنا سیاسی مستقبل بڑا واضح نظر آجائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان سے گذارش ہے کہ سب ایک صفحہ پر ہیں کا تاثر قائم رکھنے کے لئے خفیہ رپوٹوں پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ تو ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل طالبان کو معاف کرنے پر تیار تھے۔ انہیں ریاست سے ناراض نوجوان کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اور پشاور میں طالبان تحریک کا دفتر کہولنے کی دعوت دیتے رہے۔ پشتون تحفظ تحریک تو ایک جمہوری سیاسی تحریک ہے جس کی قیادت جمہوری سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ میں انکی نمائندگی ہے۔ تو پھر پشتون تحریک قیادت سے سیاسی سطح پر معاملات طے کرنے کی بجائے ریاستی طاقت کے استعمال کی کھلے عام دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں۔
سینٹ نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پشتون تحریک کی قیادت سے رابطے بڑھا کر ایک مثبت پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کو اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے تعاون سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہے۔ سیاسی کوتاہ نظری اور ریاستی قوت کے ذریعے پشتون تحریک سے نپٹنے کی پالیسی قبائلی علاقوں میں ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ گزرے کل کسی اور کی باری تھی، اگر آج پشتین تحفط تحریک کا نمبر لگا تو آنے والے کل میں عمران خان نیازی کا نام بھی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ چڑیوں کے کھیت چگ جانے کے بعد پچھتاوا کس کام کا۔
♦