ججوں کا مواخذہ

نذیر لغاری

امریکہ میں منتخب ایوانوں نے ایک دو یا پانچ آٹھ نہیں بلکہ بے شمار ججوں کا مواخذہ کیا کیونکہ امریکی جج بہرحال انسان ہوتے ہیں، وہ فرشتے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ججوں کے انصاف کیلئے ہمارا ادارہ جاتی نظام ہی کافی ہے۔ امریکہ میں طاقت کا سرچشمہ کوئی ایک ادارہ یا کسی قسم کا ادارہ جاتی گٹھ جوڑ نہیں بلکہ وہاں طاقت کا سر چشمہ امریکی آئین، امریکی عوام اور عوام کے منتخب کردہ ادارے اور منصب دار ہوتے ہیں۔

یہ 10 مئی 1796 کا واقعہ ہے، امریکہ کو آزادی حاصل کئے ابھی 20 سال ہی گزرے تھے، امریکی ایوان نمائندگان میں اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی، یہ رپورٹ جنوب مغربی کے جج جارج ٹرنر کے بارے میں تھی، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جج جارج ٹرنر نے رشوت کا مطالبہ کیا تھا اور مقدمہ چلائے بغیرایک فریق پر جرمانہ عائد کر دیا تھا۔ ایوان نے اٹارنی جنرل کی رپورٹ مزید کارروائی کیلئے سلیکٹ کمیٹی کو بھجوا دی۔ 16 فروری 1797 کو جج ٹرنر نے درخواست کی کہ ان کے خلاف الزامات کی سماعت اس وقت کی جائے جب وہ شہر میں موجود ہوں۔ سلیکٹ کمیٹی نے جج کی درخواست مسترد کردی۔

ستائیس  فروری 1797 کو مواخذے کی کارروائی جنوب مغربی علاقے میں کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد پیش ہونے کے چند ماہ بعد جج جارج ٹرنر نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

چار فروری 1803 کو امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کی طرف سے ایوان نمائندگان کو ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ تھامس جیفرسن کو امریکی جنگ آزادی کے چند مرکزی کرداروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ وہ ایک ماہر قانون، ایک عالی دماغ دانشور، ایک بلند پایہ سفارتکار اور ایک ذہیں قومی معمار سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1801 سے 1809 تک امریکی صدر کے منصب پر فائز رہے، ان کا ایک بڑا کارنامہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا

۔کانگریس مذہب کو اختیار کرنے یا مذہب کی آزادانہ پیروی میں رکاوٹ ڈالنے یا آزادی اظہار یا پریس کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے اور لوگوں کے پرامن طور پر احتجاج کرنے اور اپنی شکایات کے ازالہ کیلئے حکومت کے سامنے پٹیشن دائر کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کوئی قانون نہیں بنائے گی۔

صدر جیفرسن کی ایوان نمائندگان کو بھیجے جانے والی رپورٹ ضلع نیو ہمپشائر کے جج جان پائکرنگ کے طرز عمل کے بارے میں تھی۔ ایوان نے صدارتی رپورٹ موصول ہونے کے 14 روز بعد 18 فروری 1803 کو معاملے کی تحقیقات کیلئے سلیکٹ کمیٹی کا تقرر کیا۔ 2 مارچ کو ایوان نے جج کے مواخذے کیلئے قرارداد منظور کی۔ 20 اکتوبر 1803 کو ایوان نے مواخذے کی شکوں کا مصودہ تیار کرنے کیلئے ایک سلیکٹ کمیٹی کا تقرر کیا۔ سلیکٹ کمیٹی نے 27 دسمبر 1803 کو مواخذے کے چار نکات ایوان کے روبرو پیش کئے، 30 دسمبر کو ایوان نے مواخذے کی چاروں شکوں کو تسلیم کر لیا۔ 4 جنوری 1804 کو جج جان پائکرنگ کے خلاف مواخذے کے مقدمہ کا آغاز ہوا۔ 12 مارچ 1804 کو ایوان نے منصف کو مجرم قرار دیا اور مواخذے کے چاروں نکات کو درست تسلیم کرتے ہوئے جان پائکرنگ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔


یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب 1861 میں امریکی خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ امریکہ عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ امریکی یونین کی صدارت کا منصب ابراہام لنکن اور امریکی کنفیڈریشن کی صدارت کا عہدہ جیفرسن ڈیوس کے پاس تھا۔ ابراہام لنکن بطور ریاست امریکہ کے اتحاد اور ملک میں غلامانہ نظام کے خاتمہ کی جنگ لڑ رہا تھا جبکہ جیفرسن ڈیوس امریکی کنفیڈریشن میں غلامانہ نظام کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

چار مارچ 1862 کو ایوان نمائندگان کے رکن مسٹربنگھم نے عدالتی کمیٹی کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی ۔ جس میں جج ہمفریز کے مواخذے کی سفارش کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ۔

۔• جج ہمفریز نے کھلے عام علیحدگی کا اعلان کیا اور مسلح باغیوں کو امداد فراہم کی۔
۔• جج ہمفریز نے کنفڈرل امریکہ کے سربراہ جیفرسن ڈیوس کے ساتھ مل کر سازش تیار کی۔
۔• جج ہمفریز نے فوجی گورنر اینڈریو جانسن اور امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس جان کیٹرون کی جائدادیں ضبط کیں۔
۔• جج ہمفریز نے امریکہ کو متحد رکھنے کے ایک حامی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے جیل بھجوایا۔

ایوان نے یہ رپورٹ عدالتی کمیٹی کو واپس بھجوا دی۔ 6 مئی 1862 کو عدالتی کمیٹی نے رپورٹ دوبارہ ایوان میں پیش کی۔ اس بار ایوان نے رپورٹ منظور کرلی اور 14 مئی 1862 کو مواخذے کے نکات طے کرنے کیلئے معاملہ سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ 19 مئی 1862 کو مواخذے کے نکات ایوان میں پیش کئے گئے اور اسی روز ان نکات کو منظوری دے دی گئی۔

چھبیس مئی 1862 کو امریکی سینٹ نے مواخذے کی کارروائی شروع کی اور اسی روز ایوان نے جج کو مجرم قرار دے کر سزا دینے اور اسے منصب سےہٹانے کا حکم دے دیا۔

جہاں قانون کا راج ہوتا ہے وہاں کوئی ادارہ، کوئی منصب دار، کوئی جج، کوئی جرنیل، کوئی صحافی، کوئی افسر اور کوئی خاص یا عام فرد قانون سے بالا تر نہیں ہوتا۔ جہاں قانون کا راج ہوتا ہے وہاں عوام کے منتخب ادارے دیگر تمام اداروں سے بالاتر ہوتے ہیں، جہاں قانون کا راج ہوتا ہے وہاں اعلیٰ عدالتی یا انتظامی عہدوں پر متمکن شخصیات کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون نہیں ہوتے بلکہ قانون وہ ہوتا ہے جسے عوام کے منتخب نمائندے اپنے ایوانوں میں مقررہ قوائد کے مطابق طے کرتے ہیں۔

ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ اقتدار، تمام اختیارات اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔

Comments are closed.