لیاقت علی
پاکستان بنانے کی دعوید ار سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ بنیادی طور پر مسلم جاگیرداروں کی نمائندہ جماعت تھی بالخصوص ان علاقوں میں جو اس وقت پاکستان میں شامل ہیں اس کی سیاسی حمایت کا انحصار جاگیرداروں، پیروں،اور انگریز کے حاشیہ نشینوں پر تھا۔
قیام پاکستان سے قبل ہونے والے 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ نے پنجاب میں جو جاگیرداروں کا گڑھ تھا، کسانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اگرچہ زرعی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا لیکن الیکشن جیتنے اور قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے جاگیرداری کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کی اور حکومتی عہدے چن چن کر بدترین فیوڈلز کو دیئے۔
پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان توجاگیرداروں کے خصوصی پشتیبان تھے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں خواہ مذہبی تھیں یا غیر مذہبی ماسوائے کمیونسٹ پارٹی پاکستان جاگیرداری کی حمایت میں پیش پیش تھیں۔ نواب زادہ نصراللہ جو بعد ازاں بابائے جمہوریت کہلائے نے جاگیرداری کے تحفظ کے لئے انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت الشریعہ بنائی تھی جس کا بنیادی مقصد شریعت اسلامی کے نام پر جاگیرداری کا تحفظ اورزرعی اصلاحات کی مخالفت کرنا تھا۔
بھٹو نے جنرل ایوب خان کے خلاف جو تحریک چلائی اس میں انھوں نے کسانوں سے زرعی اصلاحات کے نفاذکا وعدہ کیا تھا چنانچہ 1971 میں جب وہ برسر اقتدار آئے تو انھوں بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرمارشل لا کا ضابطہ 115جاری کیا جو زرعی اصلاحات کے لئے تھا۔ ان زرعی اصلاحات کے تحت 1227854 ایکڑ رقبہ جاگیرداروں سے حاصل کرکے 72243 کاشتکاروں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
بعد ازاں بھٹو نے 1977 میں بھی زرعی اصلاحات کیں جن کی بدولت 187202 ایکڑ رقبہ جاگیرداروں سے حاصل کیا گیا اور اسے17659 کاشتکاروں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ بھٹو حکومت نے ان زرعی اصلاحات پر عمل درآمد کرانے کے لئے فیڈرل لینڈ کمیشن تشکیل دیا تھا جس کے چئیرمین وفاقی وزیر شیخ رشید احمد( بابائے سوشلزم) کو مقرر کیا گیا تھا۔
جاگیرداربھٹو کی نافذ کردہ ان زرعی اصلاحات سے ناخوش تھے اوروہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کو ناکام کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے انھیں ان کی ان کوششوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان کے دانشوروں کی ہمہ وقت حمایت حاصل رہتی تھی۔ جاگیرداری کے حامی یہ مذہبی دانشور قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرتے تھے کہ اسلام ملکیت کی حد مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور زرعی زمین کی حد ملکیت مقرر کرنا خلاف اسلام اور خلاف شریعت ہے۔
امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی مسئلہ ملکیت زمین کے عنوان سے ایک پوری کتاب لکھ چکے تھے جس میں انھوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی کہ اسلام لا محدود حد ملکیت کا حامی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ملکیت ّحلالٗ طریقے سے حاصل کی گئی ہو۔
مولانا مودودی زرعی اصلاحات کے مخالف تھے اور انھیں اسلامی اصولوں سے روگردانی اور متصادم قرار دیا کرتے تھے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود بھی جاگیرداری کے حمایتی اور زرعی اصلاحات کے مخالف تھے انھوں نے بھی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں ایک کتابچہ تحریر کیا تھا۔
بھٹو کی زرعی اصلاحات سے متاثر کئی جاگیرداروں نے فیڈرل لینڈ کمیشن اور عدالتوں کے دروازے کھٹکٹائے اور زرعی اصلاحات کو خلاف اسلام قرار دلوانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اسی طرح ایک کوشش قزلباش وقف نے بھی کی تھی۔ قزلباش وقف 1952 میں ناصر علی خان قزلباش نے قایم کیا تھا۔یہ وقف 40 مربع(1000 ایکڑ) زرعی اراضی اور دوسری شہری جائیداد پر مشتمل تھا۔ یہ وقف بھی بھٹو کی زرعی اصلاحات سے متاثر ہوا تھا۔ چنانچہ اس وقف نے اس زرعی اصلاحات کو عدالت میں چیلنج کردیا اور انھیں قرآن اور حدیث کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی منسوخی درخواست کی۔
یہ کیس مختلف عدالتوں میں 8 سال تک زیر سماعت رہا اور بالا آخر یہ سپریم کورٹ پاکستان کے شریعت اپیلٹ بنچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر ہوا تھا۔ اس شریعت بنچ کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ تھے جب کہ اس کے دوسرے ارکان میں جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمان اور دو مذہبی شخصیتں پیر محمد کرم شاہ اوراور مولانا محمد تقی عثمانی شامل تھے۔اس شریعت بنچ نے 21 اگست 1989 کو اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ یہ فیصلہ 186 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا غالب حصہ دونوں مولوی حضرات کا لکھا ہوا ہے اور انھوں نے ڈھونڈ ڈھونڈکر تاریخ اسلام اور فقہا کی کتابوں سے ایسے حوالے درج کئے ہیں جن سے ملکیت کی حد مقرر کرنا خلاف اسلام ثابت ہوتی ہو۔
انھوں نے مولانا مودودی کی کتاب مسئلہ ملکیت زمین اور ڈاکٹر اسرار کے رسالے حکمتہ القران پر بھی انحصار کیا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ملکیت کی حد مقرر کرنے کا مخالف ہے اور یہ اسلام کے نزدیک احسن اقدام نہیں ہے۔ سوویت یونین میں کسانوں میں زرعی زمین تقسیم کرنے کی مخالفت میں انھوں نے ریڈرز ڈائجسٹ کو بنیاد بنایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ زرعی اصلاحات کی بدولت سوویت یونین کی زرعی پیداوار کم ہوگئی تھی۔
سوویت یونین کی مخالفت میں جس کتاب پر انحصار کیا گیا ہے وہ جماعت اسلامی کے ایک ڈائی ہارڈ مظہر الدین صدیقی نے لکھی تھی جس کا نام تھا اسلام کا معاشی نظام اور اشتراکیت ۔ اس فیصلے میں مختلف فقہا کی کتابوں سےطویل ایسے اقتباسات دیئے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ حد ملکیت مقرر کرنا ظلم اور خدائی احکامات کی خلا ف ورزی ہے۔ جج صاحبان کہتے ہیں کہ نیشنلائزیشن اس صورت میں ناجائز ہے جب اس کے جائز مالکوں کو کسی معاوضے کے بغیر ان کی ملکیت سے محروم کرنا پڑےیا اس کی شرعی مستحققین کا حق تلف کرکے یہ اقدام کیا جائےٗ(صفحہ 232)۔
مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ہماری نظر میں موجودہ زمینداری نظام میں جو خرابیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں ان کا حل اس طرح کی ّتحدید ملکیتٗ نہیں ہےجس کے ذریعے گزوں اور ایکڑوں میں اس کی حد مقرر کردی جائے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کا جاگیرداری کے حق میں اور زرعی اصلاحات کے خلاف یہ فیصلہ آج تک موثر ہے اور اس کی موجودگی میں ملک میں زرعی اصلاحات کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عابد حسن منٹو نے اس فیصلے کے خلاف کئی سال قبل اپیل دائیر کی تھی جو ابتدائی سماعت کے بعد باقاعدہ سماعت منظور کر لی گئی تھی لیکن کافی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس میں سپریم کورٹ کے کسی بنچ کے روبرو فکس نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اپیل کو فوری طور پر فکس کرکے اس کی سماعت کی جائے
♦