رویش کمار
اخبار ’انڈین اکسپریس‘ میں شوبھاجیت رائے کی نیوز شائع ہوئی۔ قارئین کرام کو یہ نیوز اسٹوری ضرور پڑھنا چاہئے۔ اس سے مختلف پہلو پر روشنی پڑتی ہے اور اس معاملے میں آپ کی معلومات میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔ ہندوستان کو مسعود اظہر پر تحدیدات مطلوب تھے۔
نیز یہ جائزہ بھی لیجئے کہ ہندوستان کو سیاسی فائدہ کے ساتھ اس پابندی کو حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ مفاہمت کرنی پڑی۔ اس کے عوض میں ہندوستان نے پاکستان اور چین کے مطالبات قبول کرلئے، اور ایران کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ ڈالا۔ کیا ایسا کرنا چاہئے تھا جو کچھ کیا گیا؟ یہ سب کچھ محض الیکشن جیتنے کیلئے کیا گیا یا پھر ہندوستان کے طویل مدتی مفادات کو ملحوظ رکھا گیا؟ شائع شدہ رپورٹ کے ساتھ تبصرہ بھی موجود ہے۔
یکم مئی کو مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ اس کا فیصلہ 10 روز پیشتر ہوگیا کہ اِس مرتبہ یہ اقدام ضرور ہوجائے گا۔ چین مخالفت نہیں کرے گا۔ نیویارک میں بڑے پیمانے پر سفارتی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ اس میں تمام چھ ممالک کے عہدے دار شریک ہوئے۔ ہر کوئی اپنے مفاد کے مطابق اپنی چال چل رہا تھا۔ ہندوستان نے بس اتنا کہا کہ ہم دہشت گردی کے سوال پر مفاہمت نہیں کرتے ہیں۔ لیکن مزید رپورٹس پڑھنے کے بعد ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا ہندوستان نے اس فیصلے کی قیمت چکائی یا نہیں؟
چینی مذاکرات کی مسعود اظہر کے مسئلے پر بات چیت کیلئے پاکستان آمد ہوتی ہے۔ چین ، ہندوستان سے کہتا ہے کہ پاکستان نے بعض شرطیں رکھی ہیں۔ شرائط یوں پیش کی گئیں: کشیدگی میں کمی لانا چاہئے، بات چیت ہونا چاہئے، پلوامہ کے حملے کو مسعود اظہر سے نہیں جوڑنا چاہئے، کشمیر میں کوئی تشدد نہیں ہونا چاہئے۔ ہندوستان نے پاکستان کی شرطیں قبول نہیں کئے۔ اس درمیان ہندوستان کی مسعود اظہر کے تعلق سے بے چینی قابل فہم رہی۔
اُدھر سے ایک شرط کا اضافہ ہوا۔ ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کی تائید کرے گا، جس پر ہندوستان نے 2017ء میں احتجاج کیا تھا۔ ہندوستان کی دلیل رہی کہ پاکستان اور چین کے درمیان بنائی جارہی راہداری بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کا حصہ رہے گی۔ یہ پراجکٹ ہندوستان کے جغرافیائی اقتدار اعلیٰ میں دخل اندازی ہے کیونکہ یہ پاکستان مقبوضہ کشمیر سے گزرتا ہے۔ اس دوران چین نے دستبرداری اختیار کرلی۔ چین نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کے تعلق سے کوئی پوزیشن لینا پسند نہیں کرے گا۔ ہندوستان نے وضاحت کی کہ مسعود اظہر محض ایک شخص ہے، اس میں پاکستان کہاں سے آتا ہے؟
دریں اثناء بالاکوٹ میں ہندوستان نے فضائیہ کے ذریعے آپریشن انجام دیا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔ محروس ونگ کمانڈر ابھینندن کو واپس ہندوستان کے حوالے کیا گیا جس پر شکریہ ادا کیا گیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی غائب ہونے لگی۔ پاکستان کی کشیدگی گھٹانے سے متعلق پہلی شرط پوری ہوگئی۔
اب دیگر شرائط پر غوروخوض کرنا تھا۔ پاکستان نے نہیں چاہا کہ پلوامہ اور کشمیر میں دہشت گرد سرگرمیوں کا تذکرہ کیا جائے۔ ہندوستان نے قبل ازیں مسعود اظہر کے خلاف پابندی کی تجویز پلوامہ سانحہ کے سبب ہی پیش کی تھی۔ وسط اپریل میں بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کے تعلق سے بات چیت میں پیشرفت ہوئی۔ امریکہ نے چین سے کہا کہ عاجلانہ فیصلہ کرے، بصورت دیگر اقوام متحدہ میں کھلی رائے دہی ہوگی۔
چین اس کیلئے تیار نہ تھا۔ ہندوستان یہ کہنے کیلئے تیار ہوگیا کہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کے تعلق سے کوئی بیان نہیں دے گا لیکن اس کے درجہ کے بارے میں مفاہمت نہیں کرے گا۔ ہندوستان اس پراجکٹ پر کوئی بیان نہیں گا، جسے ہندوستان اپنے اقتدار اعلیٰ میں مداخلت سمجھتا ہے! کیونکہ ایسی صورت میں ہی انتخابات گزرنے سے قبل مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جائے گا اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا یہ اقدام انتخابی کامیابی میں معاون ہوسکتا ہے۔
اُدھر پاکستان نے اشارہ دیا کہ اُسے مسعود اظہر کو گلوبل ٹیررسٹ قرار دیئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ اس کی بقیہ شرائط بھی پوری کردی گئیں۔ چین اور پاکستان نے محسوس کیا کہ مسعود اظہر پر امتناع سے پاکستان کا موقف بہتر ہوگا۔ یہ پیام جائے گا کہ پاکستان دہشت گردی سے لڑنے کیلئے سنجیدہ پہل کررہا ہے۔ چنانچہ پاکستان نے مسعود اظہر کے کھاتے منجمد کردیئے۔
امریکہ نے 22 اپریل کو اعلان کیا کہ ہندوستان کو ایران سے تیل درآمدات کیلئے استثنا حاصل ہوگا، لیکن 2 مئی کے بعد اس سے دستبرداری اختیار کرلی جائے گی۔ ہندوستان نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ ایران بھی اپنے موقف سے دستبرداری کی بات نہیں کررہا ہے۔ ایران واحد ملک ہے جس نے ہندوستان کو تیل اس کی (ہندوستانی) کرنسی میں فروخت کیا ہے۔ امریکہ نے کہا کہ نئی دہلی حکومت کو دہشت گردی کے مسائل پر مدد کرنے کے عوض میں ہندوستان کو ایران کے خلاف تحدیدات کی پالیسی کی حمایت کرنا ہوگا۔ ہندوستان نے مسعود اظہر پر پابندی کی خاطر ایران کو خیرباد کہہ دیا۔
معتمد خارجہ وجئے گوکھلے 22 اپریل کو بیجنگ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ’ڈیل‘ طے ہوجاتی ہے۔ پلوامہ حملے کو مسعود اظہر معاملے سے علحدہ کردیا جاتا ہے۔ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا لیکن اس لئے نہیں کہ وہ ہندوستان کے خلاف کوئی دہشت گرد حملے میں ملوث ہوا؛ بلکہ اس لئے کہ وہ القاعدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ طالبان کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔
ہندوستان اسے اپنی فتح قرار دے رہا ہے۔ ہندوستان اس کے پس پردہ مبہم باتوں کو چھپا رہا ہے۔ اب اگر وزیراعظم مودی اسے تیسرا سرجیکل اسٹرائک کہیں تو عوام کو جاننے کا حق ہے کہ انتخابی فوائد کیلئے وزیراعظم مودی نے پاکستان اور چین کے کیا شرائط قبول کئے؟ اس بات کی ضمانت تو نہیں دے سکتے کہ ایسی چیزیں ہندی اخبارات میں شائع اور ہندی چیانلوں پر نشر کی جاسکتی ہیں اور کی جائیں گی۔ عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم ان کو ٹارچ دکھاکر سورج باور کرا رہے ہیں۔
روزنامہ سیاست ، حیدرآباد انڈیا