پاکستان کے شہر کراچی میں لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کے لیے دیا جانے والا دھرنا 19 افراد کی بازیابی اور حکام کی جانب سے مزید افراد کی بازیابی کی یقین دہانیوں کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
وائس فار مسنگ شیعہ پرسنز کے سربراہ راشد رضوی کے مطابق بازیاب ہونے والے 19 افراد میں سے نو اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے ہیں جبکہ 10 افراد کی مختلف مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی گئی ہے تاہم ان کے اہلخانہ کو ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دھرنے کے دوران حراست میں لیے جانے والے 17 افراد کی رہائی بھی عمل میں آ چکی ہے۔
راشد رضوی نے بی بی سی اردو کے عماد خالق کو بتایا کہ ’ہمارے مذاکرات صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی ہدایت پر گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزرا اور ریاستی اداروں کے چند اہم حکام کے ساتھ ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ دھرنا شروع ہوا تو پہلے مرحلے میں سکیورٹی اداروں نے 15 افراد کو پیش کیا تھا جن میں سے چھ پر مقدمات بنائے گیے تھے جبکہ باقی نو افراد گھر واپس آ گئے تھے۔ان کے مطابق جمعے کو مزید ایسے چار لاپتہ افراد کو ملیر کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے جو گذشتہ تین سال سے لاپتہ تھے اور ان پر چند مقدمات بنائے گئے ہیں۔
افراد میں زاہد حیدر کشمیری، سید نعیم حیدر، سید حسین احمد، سید شیراز حیدر شامل ہیں۔ ان میں سے نعیم حیدر کو 16 نومبر 2016 کی رات درجن کے قریب مسلح افراد ہتھکڑیاں لگا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان افراد میں سے بعض نے چہروں پر نقاب پہن رکھے تھے جبکہ دیگر پولیس وردی میں تھے۔
نعیم حیدر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ حراست میں لیے جانے سے دو روز قبل ہی اپنی حاملہ بیوی کے ہمراہ عراق میں زیارات کے بعد کراچی پہنچے تھے۔
راشد رضوی کے مطابق انھیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مزید آٹھ افراد سنیچر کو واپس آ جائیں گے اور اس طرح سے اس دھرنے کے نتیجے میں کراچی کی سطح پر 27 لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ اسی دھرنے کے دوران چھ مئی کو کراچی پولیس کے ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ انھوں نے ایسے پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلق فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی وارداتوں سے ہے۔
ان افراد میں کراچی سے حال ہی میں لاپتہ ہونے والے شیعہ صحافی مطلوب حسین کے علاوہ سید عمران حیدر، وقار رضا، محمد عباس اور سید محتشم کے نام شامل تھے۔
عامر فاروقی نے بتایا تھا کہ مطلوب حسین پر بیرونِ ملک سے تربیت حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر ٹارگٹ کلنگ کے لیے شخصیات کی فہرست اپنے ’فارن ہینڈلر‘ کو فراہم کرنے کے الزامات ہیں۔
وائس فار شیعہ مسنگ پرسنز کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 80 شیعہ افراد لاپتہ تھے جن میں سے 41 کا تعلق کراچی سے ہے۔
راشد رضوی کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے خط لکھے جا رہے ہیں اور انھیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ان افراد کو بھی بازیاب کروایا جائے گا، اس ضمن میں شیعہ مسنگ پرسنز فرنٹ کے ساتھ رابطہ رکھا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ دھرنے کے شروع ہونے سے ہمیں 55 فیصد سے زیادہ رسپانس ملا ہے اور اس کے بعد فیملیز نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ سکیورٹی اہلکار راتوں کو گھروں میں گود کر جو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے تھے اب ایسا نہیں ہو گا‘۔
’اگر کسی کو گرفتار کرنا ہے تو قانونی راستہ استعمال کیا جائے گا اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی پر بھی عمل ہو گا۔
ماضی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے تعطل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ان کی شرط تھی کہ پہلے دھرنا ختم کیا جائے پھر کمیٹی بنائے جائے گی۔جبکہ ہم نے انھیں منع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک لوگوں کو بازیاب نہیں کیا جاتا اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نتائج دینے شروع کر دے تو مقدمہ ختم کر دیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دھرنے کے جاری رہنے سے کچھ ریاستی اداروں نے ثالث کا کردار ادا کیا اور انھوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ ہمارے مطالبات مانے جائیں۔ لہٰذا ہم نے دھرنا جاری رکھا اور اب جب اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں تو ہم نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے‘۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر پاکستان کے نمائندوں، وفاقی وزرا اور ریاستی اداروں کی جانب سے جو یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں اگر ان پر عمل نہیں ہوا تو 21 رمضان کے جلوسوں میں ملک گیر دھرنے دیے جائیں گے۔
لاپتہ شیعہ افراد کے اہلخانہ 13 دن سے کراچی کے علاقے بہادر آباد میں صدر مملکت عارف علوی کی نجی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس دھرنے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل رہی۔
BBC Urdu