وزیر اعظم مودی کو خارجہ پالیسی محاذ پر درپیش اہم چیلنجز

بھارت میں ایک طرف نریندر مودی کی دوسر ی مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدہ کی حلف برداری تقریب کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں تو دوسری طرف خارجہ پالیسی کے محاذ پر کئی اہم چیلنجز نئی حکومت کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔

نئی حکومت کے سامنے جہاں دیرینہ حریف پاکستان کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کا معاملہ ہے تو وہیں ایرانی بحران سے بخیر و خوبی باہر نکلنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم کے طورپر نریندر مودی کی حلف بردار ی کی تاریخ کا ابھی اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن اس کی تیاریاں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ ان غیر ملکی سربراہان کو دعوت نامے ارسال کرنے والا ہے جنہیں اس تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی نے اس ماہ کے اوائل میں ہی ایک اعلٰی سطحی میٹنگ میں غیر ملکی رہنماؤں کو مدعو کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔

وزیر اعظم مودی کی قیادت والی نئی حکومت کو یوں تو سب سے پہلے داخلی محاذ پر اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ساتھ ہی خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو فوری حل طلب ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان کوبھی اہم موضوع بنایا تھا۔ وہ کشمیر کے علاوہ پاکستان کے ساتھ دیگر مسائل کے لیے کانگریس کی ساٹھ سالہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ لیکن اب جب انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعد وہ مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار پر فائز ہونے والے ملک کے دوسرے وزیر اعظم بن گئے ہیں تو یہ ان کی قائدانہ صلاحیت کاا متحان ہوگا کہ وہ خود اس پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے میں کتنا کامیاب ہوپاتے ہیں۔

اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر راج کمار شرما کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”پلوامہ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے بالاکوٹ پر فضائی کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے سے زیادہ کشیدہ ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت ملنے کے بعد مودی اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔ گزشتہ دنوں بشکیک میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان مختصر بات چیت بھی اسی جانب اشارہ ہے۔

جنوبی ایشیائی امور کے امریکی ماہر مائیکل کوگل مین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مودی حکومت بہر حال اس بات کا اشارہ نہیں دینا چاہے گی کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ رشتے استوار کرنے کے لیے بے تاب ہے لیکن چند ماہ گزر جانے کے بعد اگر بھارت خیر سگالی کے تحت کچھ اقدامات کرے تو ہمیں اسے دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

تجزیہ کار وں کا تاہم کہنا ہے کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے یا نہیں؟ 2016 میں اڑی فوجی اڈے پر ہوئے حملہ کے بعد انہوں نے سارک سربراہی کانفرنس میں اپنی شرکت منسوخ کردی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بحالی کا دار و مدار بڑی حد تک اگلے ماہ بشکیک میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی سربراہی کانفرنس کے دوران عمران خان کے ساتھ وزیر اعظم مودی کی ممکنہ ملاقات پر بھی ہو گا۔

وزیر اعظم مودی کے لیے خارجہ پالیسی کے محاذ پر دوسرا بڑ اچیلنج ایران ہے۔ ممکنہ جنگ کی صورت میں ایران میں کام کرنے والے لاکھوں بھارتی اور ان پر انحصار کرنے والے کنبوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوں گی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایران ۔ امریکا بحران نے بھارت کو ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں ہی ممالک بھارت کے لئے مختلف لحاظ سے کافی اہم ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جن ملکوں کے لیے ایران سے تیل خریدنے کی رعایت ختم کردی ہے ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارتی کمپنیاں پہلے ہی ایرانی تیل کے درآمدی آرڈر بند کر چکی ہیں۔

گزشتہ دنوں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے اس مسئلے پر بات چیت کی تھی۔ تاہم بھارت نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ امریکا کی طرف سے عائد پابندی کے مدنظر ایران سے تیل درآمد کرنے کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی افسر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں بتایا تھا کہ بھارت کے لیے امریکا کے فیصلے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پہلے دور میں خارجہ پالیسی کے محا ذ پر بڑی حد تک کامیاب رہے تھے تاہم اب ان کے سامنے پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ مسائل کھڑے ہیں اور آنے والا وقت ان کے تدبر اور حکمت عملی کا بڑا امتحان ہوگا۔

DW

Comments are closed.