پی چدمبرم
مدھیہ پردیش میں 17 مئی 2019ء کو ایک ریلی سے خطاب میں مسٹر نریندر مودی نے کہا تھا، ’’کشمیر سے کنیاکماری تک، کچھ سے کامروپ تک، سارا ملک کہہ رہا ہے، ’’اب کی بار، 300 پار، پھر ایک بار، مودی سرکار‘‘۔ اعداد و شمار سے متعلق اُن کا اندازہ درست ثابت ہوا، لیکن جغرافیہ غلط۔ قطعی عددی طاقت نے ثابت کیا کہ اُن کی انتخابی نشانہ بازی کو شاندار 10 نشانات ملنے چاہئیں۔
لہٰذا، مسٹر مودی، بی جے پی، پارٹی اور حلیفوں کے کروڑہا ورکرز کو مبارکباد! وہ وزارت عظمیٰ کی اپنی دوسری میعاد شروع کررہے ہیں، میری نیک تمنائیں وزیراعظم کے ساتھ ہیں کہ وہ حکومت چلانے اور عوام کی خدمت کرنے میں کامیاب ہوں۔ ایگزٹ پول دو روز بعد 19 مئی کو شائع ہوئے اور کم از کم دو ٹھیک ٹھیک ثابت ہوئے: بی جے پی کیلئے 300، حلیفوں کے ساتھ 350 اور کانگریس کو تقریباً 50۔ ان دو پولز نے شماریاتی نمونہ کے تجزیہ اور انتخابی پیش قیاسی پر بھروسہ کو کچھ بحال کردیا ہے!۔
آج ایک اور سفر شروع ہورہا ہے۔ یہ سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔ پانچ سال بعد کچھ وقفہ ہوتا ہے اور پھرسفر کا احیاء ہوجائے گا۔ ہندوستان پر حکمرانی کا حق جتانے کیلئے پارٹیوں میں اختلافات ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اختلافات کثیر پارٹی والی جمہوریت کی مہرتصدیق ہے، بالخصوص تکثیری اور متنوع سماج کی لچکدار جمہوریت کا یہ طرۂ امتیاز ہے۔ کوئی پارٹی ہوسکتا ہے اس تنوع کو قبول کرنے سے انکار کردے اور پھر بھی نیشنل الیکشن جیت جائے، لیکن اس کا مطلب نہیں کہ تنوع حقیقت نہیں ہے۔
بی جے پی کا ہندوستان کے تعلق سے مخصوص ویژن ہے: ایک قوم، ایک تاریخ، ایک کلچر، ایک ثقافت ، ایک سول کوڈ، ایک قومی زبان، اور ’یکتائی‘ کے کئی دیگر پہلو۔ کانگریس کا ویژن مختلف ہے: ایک ملک، تاریخ کی کئی تشریحات، کئی ذیلی تاریخیں، کئی کلچرز، تکثیری سول کوڈز، کئی زبانیں، اور تنوع کے کئی دیگر پہلو جس میں اتحاد قائم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
علاقائی پارٹیوں کا اپنا ویژن ہے: یوں تو اُن کا ویژن ریاست در ریاست مختلف ہوسکتا ہے، لیکن اُن کے سیاسی بیانات سے ایک مشترک بات اُبھر آتی ہے کہ ریاست کے عوام کی تاریخ، زبان اور کلچر اعظم ترین احترام کے مستحق ہیں اور خاص طور پر ریاست کی زبان کو فروغ دیتے ہوئے اسے اولیت دینا ہوگا۔
زبان خصوصیت سے جذباتی مسئلہ ہے۔ کلچر، لٹریچر، آرٹس اور عوام کی زندگی کا ہر دیگر پہلو زبان کے اطراف گھومتے ہیں۔ یہ نہ صرف تامل عوام کے تعلق سے صحیح ہے بلکہ اُن لوگوں کیلئے بھی جو تلگو، ملیالم، کنڑا، اڈیہ، بنگالی بولتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں ہر دیگر قدم زبان کے بارے میں یہ بات درست کہی جاسکتی ہے۔ سیاست بالخصوص سیاسی رابطے میں زبان کی ظاہری اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
میں تامل عوام کو معقول حد تک جانتا ہوں۔ زبان اُن کی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہے۔ ٹامل یہ زبان بولنے والے فرد کی شناخت ہوتی ہے۔ کرناٹکی موسیقی کے تین عظیم موسیقار تاملناڈو میں پیدا ہوئے تھے لیکن اپنی شاعری سنسکرت اور تلگو میں لکھی۔ تامل (موسیقی) تحریک تاملناڈو کی فوقیت اور اس پر فخر کو واضح کرنے کیلئے شروع ہوئی تھی۔ مندروں میں ’ارچنا‘ سنسکرت میں ہوتی تھی اور ہنوز اکثر ’ٹمپل ارچکا ‘ اور پوجا کرنے والوں کی ترجیحی زبان ہے؛ ٹامل ارچنا کو حکومت نے متبادل کے طور پر رائج کیا اور اس پالیسی کو ہر کسی نے قبول کیا۔ ہندومت جیسا کہ آج ہم جانتے ہیں، شوازم اوروشنو ازم رہا ہے اور ٹاملناڈو تاریخ اور مذہبی ادب میں اسی طرح درج ہے۔
درحقیقت، تامل کلاسیکی تصنیفات مذہب کی تب تک رہنمائی کرتے رہے جب تک وہ عمدہ ادب کی مثالیں رہیں۔ علاوہ ازیں، عیسائی اور مسلم اسکالرز اور مصنفین نے ٹامل زبان کو خوب فروغ دینے میں اپنا حصہ ادا کیا۔ جو کچھ میں نے ٹاملوں اور ٹامل زبان کے تعلق سے کہا ہے وہ کیرالا، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال کے عوام اور وہاں کی زبانوں کے بارے میں بھی درست ہے۔ چاہے تو آپ تصدیق کرلیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسابقتی ویژنز کے موضوع پر واپس آتا ہوں۔
الیکشن 2019ء کے نتائج کو کسی ایک ویژن کو دیگر کے مقابل فیصلہ کن انتخاب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ سچ بات یہ ہے کہ مذہب کبھی زبان یا کلچر پر کچل نہیں سکتا ہے۔
سکیولر مملکت کا آئیڈیا ہندوستان میں شروع نہیں ہوا۔ یہ جدید جمہوریت اور جمہوریہ کے مخصوص پہلوؤں میں سے ہے، جس کی بہترین مثالیں یورپ کے ممالک ہیں۔ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یورپی ممالک کے لوگ غیرمذہبی ہیں، بلکہ وہ اپنی سیاست اور حکومت کے نظام میں سکیولر رہنے پر ثابت قدم ہیں۔ سکیولر کا بلاشبہ یہی مطلب ہے کہ ’’مذہبی یا روحانی امور کے ساتھ جڑے نہ رہنا‘‘۔
گزرتے وقت کے دوران بالخصوص یورپ میں سکیولرازم کا مطلب اُبھرا کہ مملکت کو چرچ (یعنی مذہب) سے جدا رکھا جائے۔ آج عصری دور میں خاص طور پر تکثیری اور متنوع سماجوں میں سکیولر کے معنی ہیں کہ انتہائی موقف کو ترک کرنا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا طریقہ اختیار کرنا۔ میرے دلائل کا مطمح نظر ہندوستان ہے، چنانچہ ہندوستانی حکومت اور حکمرانی کے تمام دیگر اداروں کو لازما ہمیشہ سب کے ساتھ یکساں رویہ رکھنا چاہئے۔
کیا بی جے پی نے حالیہ اختتام پذیر انتخابات سب طبقات کی شمولیت کے نعرے پر لڑے ہیں؟ مجھے اس پر شبہ ہے۔ نیوز رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے 303 ایم پیز میں کوئی بھی مسلم کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اور بھی طبقات ہیں جو خود کو حاشیہ پر محسوس کرتے ہیں جیسے دلت، قبائلی، عیسائی، کسان اور زرعی ورکرز۔
بعض گوشے ہیں جن کو درحقیقت ترقیاتی عمل سے خارج رکھا گیا ہے جس کی وجہ ذات، غربت، ناخواندگی، پیرانہ سالی اور دیگر وجوہات ہیں۔ اس لئے وزیراعظم کو اپنے اصل نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی نے یہ الیکشن کئی طبقات کو حاشیہ پر کردینے کے ایجنڈے کے ساتھ لڑا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حکمرانی کا عمل اس کے برعکس رہے گا۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا