منیر سامی
پاکستان کے ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر انورؔ سجاد ، کا ایک ناول’خوشیوں کا باغ ‘ ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ، خوشیوں کا باغ، کا اس تحریر کے عنوان سے کیا تعلق ہے۔ اس پر ابھی آتے ہیں ، پہلے اس ناول کے دیباچہ سے ایک اقتباس پڑھیں ۔
اس دیباچہ میں انہوں نے ایک ممتاز ولندیزی مصور، ’ ہائرو نیمس بوشؔ ‘ Hieronymus Bosch کی ایک تصویر کا ذکر کیا ہے جس کا عنوان ’ زمینی خوشیوں کا باغ ‘ یا The Garden of Earthly Delights ہے۔ اس تصویر پر مصوری کے نقادوں کی مختلف اور متضاد رائے ہیں۔ انور سجاد نے بھی اس پر تبصرہ کیا ہے۔ بعضوں کے نزدیک اس تصویر میں یہ بنیادی خیال پیش کیا گیا ہے کہ ، آسمان سے زمین پر اترنے کے بعد اس دنیا میں انسانوں کی تمام خو شیاں عارضی اور ناپایئدار ہیں، اور انسان کو ایک دن اپنی بے راہ روی کا جواب دینا ہو گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔
انور سجاد نے لکھا ہے کہ تصویر کے تیسرے پینل میں ’’ جو پہلے دو پینلوں یا حصوں میں بیان کردہ مستی اور سرمستی کی سزا دکھائی گئی ہے ۔ یہ ایک حقیقی جہنم ہے جہاں انسان اپنی روح کو عارضی جسمانی، جنسی لذتوں پر قربان کر دینے کے باعث دائمی عذاب میں مبتلا ہے۔ موسیقی جسے عموماً اعصابی سکون اور راحت کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے، پچھتاوے کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک مسلسل بے حد ڈرائونا خواب ۔ اس پینل میں دو شکلیں خاص طور پر پہلی ہی نظر میں اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔ تین ٹانگو ں والا عفریت کرسی پر بیٹھا ، سر پر الٹا ڈول پہنے ، برہنہ عورت کو نگلتا ، طوطے کی چونچ والا عفریت کہ جو اس پینل میں چیختی اذیتوں کی صدارت کرتا نظر آتا ہے۔‘‘
ان سطور کو ذہن میں رکھیں ، اور اب اردو کے ایک اور ممتاز ادیب ، شاعر، گیت نگار، اور ناول نگار ’اسد ؔ محمد خان کے ایک افسانے ’غصہ کی نئی فصل ‘ پر نظر ڈالیں۔ دراصل ہماری اس تحریر کا عنوان اسی کہانی سے مستعار ہے۔
’’ یہ پہلا دن بھر پور گزرا تھا۔عشا سے قبل سرائے میں کھانا کھا کے اس نے بازار کا ایک چکر لگایا۔ شہر کے مرکزی علاقہ میں افغانوں کے نو تعمیر مدرسے سے ملی ہوئی چھوٹی سی مسجد تھی۔ حافظ نے وہاں عشا کی نماز پڑھی۔ پھر کچھ بھٹکتا پوچھتاوہ اپنی سرائے میں لوٹ آیا۔ تھکا ماندہ تھا ۔ فوراً ہی سو گیا۔
خدا معلوم حافظ گینڈے نے ایک پہرنیند لی ہوگی، یا دو پہر،جو اسے آدھے جاگتے ، آدھے سوتے ، میں لگا کہ جیسے ایک آدم خور غولِ بیابانی چیختا چلاتا اس کا پیچھا کر رہا ہے۔وہ بھاگنا جان بچانا چاہتا ہے ، مگر زمین نے اس کے پائوں پکڑ لیئے ہیں۔ ۔۔۔۔ آدم خور اپنے پنجے بڑھا کر حافظ کو چھو سکتے تھے۔ اور کسی ایک نے تو اپنا نوکیلا پنجہ بڑھا کر اس کی پشت پر خراشیں بھی ڈال دیں۔ معاذ اللہ یہ کیا خواب تھا۔ حافظ نے سوچا ۔ مگر یہ خواب نہیں تھا۔ کس لیئے کہ، چیخ پکار اور غیض کی آوازوں سے کمرہ جیسے بھرا ہوا لگتا تھا۔ ۔۔۔
حافظ گینڈے نے دلائی کو اچھی طرح لپیٹا ، چراغ اٹھایا ، اور نیام کی ہوئی تلوار لیئے کمرے سے باہر آگیا۔ سوچ رہا تھا کہ کہیں سرائے پر رہزنوں نے حملہ تو نہیں کر دیا۔ مگر یہ بھر ا پُرا شہر تھا، اور شہر بھی کو ن سا۔ دارالخلافہ ۔ شیرشاہ کی عمل داری میں ڈاکئوں لٹیروں کی یہ ہمت کہا ں ہو سکتی تھی کہ بستیوں پر یوں چڑھ دوڑیں۔ رہ زنوں کی تو اس وقت بن آتی ہے ، جب حکمراں کمزور یا بد دیانت ہوں۔۔شیر شاہ نہ توکمزور تھا نہ بد دیانت حکمراں۔ ۔۔
۔۔۔ اس نے دیکھا کے سرائے کی چھت پر ۔۔ چالیس سے پچاس مرد اور عورتیں دائرہ بنائے بیٹھے ہیں اور حلق سے غیض و غضب کی آوازیں نکالتے ہیں۔ ۔۔۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت جو شاید کسی سرد ملک سے آئی تھی، حلقہ چھوڑ کر اٹھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتی حافظ کی طرف آئی۔۔۔ اس نے اور ایک سائس نے حافظ کا ایک ایک ہاتھ تھام لیااور اسے حلقہ کی طرف کھینچنا چاہا۔۔۔ عورت کی نظر حافظ کی تلوار پر پڑی۔ اس نے چیختے ہوئے کہا ، ’توبہ تم یہ ہتھیا ر کیوں لائے ہو۔۔ ’ یہ حلقہ غیظ کا حلقہ ہے‘۔۔ تلوار کا یہاں کیا کام۔۔ اسے رکھ دو اور ہمارے ساتھ آئو۔۔‘‘‘
دراصل اسد محمد خان کی اس کہانی ’غصہ کی نئی فصل ‘ اور انور سجاد کے ناول ’خوشیوں کا باغ ‘ کی یاد ہمیں اس خبر کو پڑھ کر آئی جس میں ایک عالمی سروے کا ذکر ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی نا امیدی اور بڑھتے ہوئے غصہ کا ذکر ہے۔ اور خاص طور پر یہ کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ غصہ کرنے والے ملکوں میں دسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس فہرست کے اولین ملکوں میں، ۔۔ ٓرمینیا، عراق، ایران، فلسطین، مراکش، ترکی، نائجر،چاڈ، اور لیبیا ، شامل ہیں۔
ہم نا تو ماہرِ نفسیات ہیں، اور نا ہی ماہرِ سماجیات ، جو ان عوامل کا تجزیہ کریں کہ اس غصہ کی وجوہات کیا ہیں۔ ہا ں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جن ملکوں کا ان دس ملکوں میں ذکر ہے ، صرف ان کے نام ہی آپ کو اشارہ دیں گے کہ ان کے طیش اور ناراضگی کے اسباب کیا ہیں۔
ہاں ہم یہ ضرور سوچتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان جس کی بنیاد شاید یہ سوچ کر ڈالی گئی تھی کہ وہ وہاں بسنے والوں کے لیئے جنتِ ارضی، یا ’خوشیوں کا باغ ‘ ہوگا ، وہاں’ غصے کی فصل‘ کیسے اگ آئی اور کیوں زر خیز سے زر خیز تر ہوتی چلی گئی۔
ہمارے آپ کے عزیز اور ممتاز مصنف اور دانشور’ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی ‘ نے حبیب یونیورسٹی میں اسد محمد خان سے سے ایک انٹرویو کیا تھا ، جس کا ایک اقتباس ہم سب کی توجہہ چاہتا ہے۔:
’’ کہ انسانی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ کون ایسی قوم ہو گی جو اتنا لمبا منفی سفر ، مائنس کی سمت سفر کرے ، اور آرام سے بیٹھی ہو۔ ہمیں نہیں پتہ ہمار ا انجام کیا ہوگا، کسی کو نہیں پتہ ہوتا۔۔ لیکن بہت سی قومیں یہ طے کر لیتی ہیں کہ ہمیں اٹھنا اور بڑھنا ہے۔۔۔‘‘
اور آخر میں اسد محمد خان کی کہانی، چوٹیوں کی قطار سے ایک سطر: ’’۔۔ اور آخری بات اس نے یہ کہی کہ بھائی میں بھی اور تم بھی، اور ہم سب، اصل میں اپنی مصلحت اور منافقت کے کوفے میں آباد ہیں۔ اور حق کے لیے جنگ کرنے والی کسی مستقیم ہستی سے آنکھ نہیں ملا سکتے ۔ خواہ وہ استقامت کی سب سے بڑی علامت ’حسین ‘ ہوں ، یا ہم عصر تاریخ کے فلسطینی۔۔۔‘‘
میں یہاں یہ عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہمیں کچھ سمجھنے کے لیئے ڈاکٹر آصفؔ فرخی کے ایک اہم اور یاد گارپروگرام سے استفادہ کرنا چاہیے جو انہوں نے حبیب یونیورسٹی میں اسد ؔ محمد خان کے ساتھ کیا تھا۔ میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آج مجھے ’غصہ کی نئی فصل ‘ کے کردار حافظ گینڈا، یا حافظ شکراللہ ، کے بارے ، میں میری درخواست پر کچھ وضاحت دی۔
آپ ان کا یہ پروگرام اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں :: https://vimeo.com/130514243
One Comment