ایسٹر بم حملوں کے بعد سری لنکا کی حکومت نے اپنے ملک میں موجود چھ سو غیر ملکیوں کو نکال دیا ہے اور ان میں تقریبا دو سو مسلمان مبلغین بھی شامل ہیں۔ کولمبو حکومت نے مذہبی ویزوں کے اجراء میں بھی سختی لانے کا عندیہ دیا ہے۔
سری لنکا کے وزیر داخلہ وجیرا ابے وردھنا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تمام مذہبی مبلغین ملک میں قانونی طور پر داخل ہوئے تھے لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر جاری کریک ڈاؤن میں پتا چلا کہ یہ ویزوں کی مدت سے زیادہ قیام کیے ہوئے تھے۔ وزیر داخلہ کے مطابق انہیں جرمانے بھی کیے گئے ہیں اور ملک بدر بھی کر دیا گیا ہے۔
ابے وردھنا کا مزید کہنا تھا، ’’ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے ویزا سسٹم کا دوبارہ جائزہ لیا ہے اور مذہبی علماء کے لیے ویزا پالیسی سخت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’جن افراد کو ملک بدر کیا گیا ہے، ان میں سے تقریباً دو سو مسلمان مبلغین تھے‘‘۔
سری لنکا میں ہونے والے ایسٹر بم حملوں میں 257 افراد ہلاک اور تقریبا ً پانچ سو زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملوں کا منصوبہ ساز ایک مقامی مبلغ تھا، جس نے جہادیوں سے رابطے کرنے کے لیے بھارت کے متعدد دورے کیے تھے۔
سری لنکا کے وزیر داخلہ نے ملک بدر کیے جانے والوں کی شہریت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا لیکن پولیس حکام کے مطابق ایسٹر بم حملوں کی وجہ سے، جو غیرملکی ویزے کی مدت ختم ہونے کے باوجود بھی ملک میں موجود تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ اور پاکستان سے تھا۔
ملک میں موجود غیرملکی مبلغین کے حوالے سے سری لنکا کے وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا، ’’کئی مذہبی ادارے ایسے ہیں، جہاں محدود غیرملکی مبلغین کئی عشروں سے آ رہے ہیں، ہمیں ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کچھ ادارے ایسے ہیں، جہاں حالیہ برسوں میں بہت زیادہ غیر ملکی مبلغین پہنچے ہیں۔ ہم ان پر اب زیادہ توجہ دیں گے‘‘۔
سری لنکا کے اس وزیر کے مطابق یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ غیرملکی مبلغین مقامی نوجوانوں کو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے ہوئے اکیس اپریل جیسے خودکُش حملے دوبارہ کروا سکتے ہیں اور اسی وجہ سے حکومت ملک کی ویزا پالیسی پر نظرثانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایسٹر بم حملوں کے بعد سے سری لنکا میں ایمرجنسی نافذ ہے اور سکیورٹی اداروں کو مشتبہ افراد کو طویل عرصے تک گرفتار کرنے کے خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ داعش کے انتہاپسندانہ نظریات پر مشتمل مواد اور دھماکا خیز ڈیوائسز کی تلاش میں گھر گھر تلاشی کا سلسلہ جاری ہے۔
DW