پی ٹی ایم کی طرف سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دئے گئے دھرنے کے شرکا پر پاک فوج کی فائرنگ سے ایسا لگتا ہے کہ اب فوج کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ اس فائرنگ تین افراد ہلاک ہوئے۔ریاستی اداروں اور اس کے پروردہ آزاد میڈیا نے کوشش کی کہ فائرنگ کا ملبہ پی ٹی ایم کے رہنمائوں پر ڈالا جائے مگر بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ کچھ دیر بعد ہی حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے۔
سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی جس میں وہ ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ محسن داوڑ جو کہ رکن پارلیمنٹ ہے فوج پر حملہ آور ہو ۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے ہی شہریوں، بچوں اور سیاستدانوں کو قانون کی بالادستی، حق اور جمہوریت کی بات کرنے پر غدار کہیں گے تو پھر خطرناک راستے کی طرف جائیں گے“۔
پھر منظور پشتین کا ویڈیو بیان بھی آگیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ چیک پوسٹ پر پاک فوج کے جوانوں نے محسن داوڑ اور علی وزیر کے قافلے کی بھرپور تلاشی لی اور اس تلاشی میں جتنا وقت ضائع کیا جا سکتا تھا کیااور جب ان کا قافلہ دھرنے کے قریب پہنچا توپاکستان آرمی نے پیچھے سے قافلے اور دھرنےکے شرکا پر سیدھی فائرنگ کی۔ حملے کے بعد آرمی نے کرفیو نافذ کردیا تاکہ زخمیوںکو ہسپتال نہ لے جایا جا سکے۔ منظورپشتین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کہ آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے کا تسلسل ہے۔
ایک بلوچ دوست نے لکھا کہ 25 اگست 2008 کو تربت میں سینکڑوں افراد جمع ہیں ۔نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کی مناسبت سے ریلی نکالنے کا پروگرام ہے عوام کا جمِّ غفیر تربت کے مرکزی بازار میں جمع ہوجاتا ہے ۔ بازار فوج کے محاصرے میں ہے ـ بلند عمارتوں پر بھی فوجی بندوق لئے پوزیشن سنبھالے بیٹھے ہیں۔فوج کی بھاری نفری پریشان کن تو ہے لیکن قیادت مطمئن ہے کسی پر امن ریلی پر حملہ نہیں کیا جائے گا ۔ ابھی ریلی کو منظم کیا جارہا تھا کہ اچانک فوجی بندوقیں آگ اگلنے لگیں ، لوگ محفوظ مقام کی تلاش میں دوڑنے لگے ـ متعدد افراد زخمی ہوگئے۔بعد میں اطلاع ملی ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے بلیدہ سے تعلق رکھنے والے کارکن الطاف بلوچ قتل ہوچکے ہیں ۔تربت کی پرامن ریلی کو فائرنگ کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس سوال سے سوال نکلتا ہے، ڈھاکہ یونیورسٹی کے پرامن طلبا پر فوج نے حملہ کیوں کیا؟ بابڑا میں نہتے افراد پر حملہ کیوں کیا گیا اور پیچھے جائیں، جلیانوالہ باغ کے نہتے عوام پر کیوں گولیاں برسائی گئیں؟
پی ٹی ایم ان نوجوان پختون افراد پر مشتمل ہےجو اپنے علاقے میں جنگ کے دوران جوان ہوئے ہیں انھوں نے اپنے علاقے میں خوفناک جنگ اور اپنے گھروں کی تباہی و بربادی دیکھی ہے ۔ انہیں اپنے ہی علاقوں سے نام نہاد آپریشنوں کی وجہ سے بے دخل کیا گیا اپنی ہی سرزمین پر مہاجر بنایا گیاپھر ان مہاجر کیمپوں میں ان کی تذلیل کی گئی اور اس تباہی و بربادی کی ذمہ دار پاکستان کے ریاستی ادارے اور ان کی جہاد ی پالیسیاں ہیں جس کے لیے انہوں نے فاٹا میں اسلامی جہاد کے نام پر دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ بنائے۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو لا کر یہاں بسایا گیا۔ پہلے افغان جہاد اور پھر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں پختونوں کو مروا دیا گیا۔
لیکن اب پختون پاک فوج کی جہاد پالیسیوں کا ترنوالا بننے کے لیے تیار نہیں اور فوج کے جہادی مقاصد میں رکاوٹ بن کھڑے ہوگئے ہیں۔ اگر پی ٹی ایم کے مطالبات مان لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کو اپنی نام نہاد دفاعی گہرائی کی پالیسی سے تائب ہونا پڑے گا جو کہ پاک فوج کے لیے ممکن نہیں۔ اس علاقے کے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ریاستی اداروں کو اس طرح کی شکست نہیں ہو گی جیسے بنگلہ دیش میں ہوئی تھی۔
♦