ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل غفور نے جی ایچ کیو میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی ہے۔ انھوں نے داخلہ، خارجہ اور تعلیمی صورتحال پر گفتگو کی ہے۔ اور جب کوئی سوال کریں تو کہتے ہیں مجھے ہر معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔اس پریس کانفرنس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومتی معاملات میں عمران خان کی حیثیت ایک ڈمی سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جن اقدامات یا پالیسیوں کا اعلان حکومتی نمائندے کو کرنا چاہیں وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کررہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر اس سے پہلے بھی پی ٹی ایم کو دھمکیاں دے چکے ہیں انھوں نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم وہ حد عبور نہ کرے کہ ریاست کو زور لگانا پڑے۔ تین ماہ بعد اب ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم بتائے کہ وہ افغانستان اور بھارت سے کتنے پیسے لیتی ہے ۔ انھوں نے غداری کے الزامات بھی لگائے ہیں جن میں اب کوئی کشش نہیں رہی۔
اس کے علاوہ جنرل غفور نے یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد میں پاک فوج ملوث ہے انہوں نے کہا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ جس پر ایک بلوچ سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ ہم تو روز اوّل سے کہتے آرہے ہیں کہ پنجابی دانشور اور میڈیا “کمزور مقدمہ” کی وکالت شاندار الفاظ یعنی لفظی جگالی و رنگین خوابوں سے کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے اب ڈی جی آئ ایس پی آر نے بھی سر عام اعتراف کرلیا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ۔یعنی مِسنگ پرسن، مسخ شدہ لاشوں کا کاروبار ،و اجتماعی قبرستان سب جائز ہے ۔ اب دانشور و اہل قلم اپنے اپنے اعترافات کب کرینگے انتظار رہیگا۔
پی ٹی ایم پاک فوج کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ پختون عوام کی ایک بھاری تعداد اس کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے پختونوں کو اسلام اور جہاد کے نام پر اپنے دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کر تے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اب پختون عوام کو ہوش آگئی ہے کہ اسلام ،اور جہاد کے نام پر پختون اب مزید قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں ۔ پاکستانی ریاست نے پچھلے چالیس سالوں سے اس خطے میں اسلام کے نام پر جو جنگ مسلط کررکھی ہے پختون اب اس جنگ سے تنگ آچکےہیں اور اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
امریکہ اس جنگ سے نکلنا چاہتا ہے ۔ افغانستان اور بھارت بھی جنگ سے نجات چاہتے ہیں جبکہ پاکستان یہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔بین الاقوامی برادری کا پاکستان پر شدید دبائو ہے کہ وہ اس خطے میں دہشت گردوں کی حمایت ختم کرے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیش محمد کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے اور چین بھی پیچھے ہٹ گیا ہے ۔
جس طرح بنگال میں پاکستان کے ریاستی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف مکتی باہنی کی صورت میں ایک عوامی تحریک اٹھی تھی بعینہ اسی طرح پختون علاقوں سے بھی ریاستی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف پی ٹی ایم کی صورت میں ایک تحریک شروع ہو گئی ہے۔ پی ٹی ایم کے جتنے بھی مطالبات ہیں وہ ریاست کی دفاعی گہرائی کی پالیسی پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ ریاست کبھی بھی یہ نہیں چاہتی کہ اس پالیسی کو ختم کیا جائے۔
بھارت اور افغانستان اس تحریک کی اخلاقی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ان کا مفاد بھی یہی ہے کہ اس خطے سے دہشت گردی ختم ہو ۔ افغانستان اور بھارت کی اخلاقی مدد پاکستان آرمی کے لیے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔