کیا پاکستانی سینما بالی وڈ کے بغیر چل سکتا ہے؟

رواں برس 14 فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ایک مرتبہ پھر فلم اور سینما ہی بنے۔

پاکستانی سینما اپنے آغاز ہی سے بھارتی فلموں پر انحصار کرتا آیا ہے اور سال بھر میں ایک بالی وڈ فلم کا بزنس اکثر کئی پاکستانی فلموں کے مجموعی بزنس سے زیادہ ہی ہوجاتا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں میں جاری تنازعات اکثر بالی وڈ فلموں کی پاکستان میں نمائش کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہتے ہیں۔

رواں برس 14 فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ایک مرتبہ پھر فلم اور سینما ہی بنے۔

اس حملے کے بعد بھارتی فلم پروڈیوسرز نے اپنی حکومت کی طرح ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اپنی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے دینے سےانکار کر دیا۔ اگرچہ اس مرتبہ پاکستان نے کوئی فوری رد عمل نہیں ظاہر نہیں کیا مگر 26 فروری کو بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں مبینہ فضائی حملے کے بعد پاکستانی سینما مالکان کی تنظیم نے اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری سےبات کر کے بالی وڈ کابائیکاٹ کردیا۔

اس عمل کے نتیجے میں پاکستانی سینما شدید بحران کی زد میں آگیا اور کئی سینما گھروں کو جزوی طور پر بند کرنا پڑا۔ اس دوران تین پاکستانی فلمیں ’شیر دل‘، ’لال کبوتر‘ اور ’پراجیکٹ غازی‘ نمائش کے لیے پیش کی گئیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ پاکستان میں بالی وڈ کی حالیہ فلموں کو دیکھیں تو دسمبر 2018 میں شاہ رخ خان کی فلم ’زیرو‘ نے 14 کروڑ ، رنویر سنگھ کی فلم ’سمبا‘ نے 19 کروڑ کا بزنس کیا جبکہ فروری میں ریلیز ہونے والی عالیہ بھٹ اور رنویر سنگھ کی فلم ’گلی بوائے‘ نے 12 دنوں میں پابندی سے پہلے ہی 10 کروڑ سے زیادہ کمالیے تھے۔

پاکستانی فلموں کی ناکامی اور بھارتی فلموں میں عدم موجودگی میں کیا پاکستانی سینما کے لیے کوئی دوسری راہ موجود ہے؟ اس بارے میں سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی پابندیوں سے پاکستانی سینما اور پاکستانی فلموں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے، نقصان بھارت کا بھی ہے کیونکہ پاکستان 22 کروڑ کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔

اس کے حل کے لیے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ وزیر تھے تو انہوں نے ایک فلم بورڈ تشکیل دیا تھا تاکہ بیرون ملک سے لوگ پاکستان آکر فلم بنائیں اور انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائےگی۔ اس کے علاوہ سعودیہ عرب اور چین میں بہت بڑی مارکیٹ ہے اس کو بھی دیکھا جائے تاکہ پاکستانی فلمیں بنیں تو اپنے پیسے تو پورے کریں۔

انہوں نے بتایا کہ 30 سال پہلے پاکستان میں 1700 سینما اسکرینز تھیں اور اب صرف 150 سے کچھ زیادہ ہیں۔ سینما اسی وقت بنیں گے جب فلم بزنس اچھا ہوگا۔ تاہم ان کے مطابق پاکستان اب بھی امن چاہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بالی وڈ کی فلمیں پاکستان میں لگائی جائیں اور پاکستانی فلمیں بھارت میں دکھائیں جائیں۔

پاکستانی فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن کےسابق چیئرمین ندیم مانڈوی والا بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سال میں یہاں 15 سے20 فلمیں بنتی ہیں اور ان میں سے بھی تین چار فلمیں عیدالفطر اور عیدالاضحٰی پر نمائش کے لیے پیش کردی جاتی ہیں تو باقی سارا سال بچا ہی کیا۔ ہالی وڈ کی فلموں کی ایک محدود مارکیٹ ہے اور انگریزی فلمیں چھوٹے شہروں میں بالکل نہیں چلتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعطل عارضی ہے اور امید ہے کہ عارضی ہی رہےگا، لیکن اگر یہ مستقل ہوگیا تو پھر سینما کےلیے خطرناک صورت حال پیدا ہوجائےگی۔

ندیم مانڈوی والا کے مطابق، ’’سب جانتے ہیں کہ بھارتی فلمیں انٹرنیٹ، اور پائریٹڈ سی ڈیز کی شکل میں پاکستان بھر میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ اگر دیکھاجائے تو پابندی صرف سینما پر ہے یعنی ایک قانونی ذریعہ بند کر کے غیرقانونی ذریعہ کھلا رہنے دیا گیا‘‘۔

اس سلسلے میں انٹرنیشنل ملٹی گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین امجد رشید کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ پاکستانی سینما بالی وڈ کے بغیر فی الحال نہیں چل سکتا کیونکہ ہمارے پاس اتنا مواد ہی نہیں ہے کہ ہم سارا سال سینما میں چلاسکیں اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی سینما کی ترقی بالکل رک گئی ہے۔

امجد رشید کا مزید کہنا تھا، ’’اس بارے میں بھارت کے لوگوں کو بھی سوچنا ہوگا کیونکہ بالی وڈ کا تقریباﹰ دس فیصد عالمی منافع پاکستان سے آتا ہے، دونوں ملکوں میں ایک زبان سمجھی جاتی ہے اور یہ بڑا اثاثہ ہے۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت میں انتخابات کا عمل ختم ہونے کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوسکتی ہے کیونکہ بیک چینل پر رابطےجاری ہیں‘‘۔

فُٹ پرنٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے جنرل منیجر مرزا سعد بیگ نےکہا کہ دیگرممالک جیسےترکی اورمصر سے فلمیں لا کر اردو میں ڈب کرکے چلانے کی کوشش کی تاہم اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ فلمیں اسٹارز پرچلتی ہیں اور ان ممالک کے اداکاروں کو پاکستان میں کوئی نہیں جانتا۔ ترکش ڈرامے بھی اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ ٹی وی پر مفت دکھائے جاتے ہیں مگر سینما میں ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے: ’’فوری طورپرپاکستانی سینما کے لیے بظاہر کوئی حل نظرنہیں آتا کیونکہ مقامی فلمیں زیادہ سے زیادہ 20 بنتی ہیں اورسینما کو ہر ہفتے ایک نئی فلم چاہیے ہوتی ہے‘‘۔

دوسری جانب ایوارڈ یافتہ ہدایتکار جامی محمود کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلمسازوں کی جانب سے بالی وڈ کی طرز فلمیں بنانے کا رجحان بھی اس تباہی کا ذمہ دار ہے: ’’ہم ان کی جیسی فلم نہیں بنا کر دے سکتے، ہمیں اپنی کہانیاں دکھانا ہوں گی۔ اگر ہم اپنا انداز متعارف کروائیں تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے تاہم اس سلسلے میں پہلا قدم کون اٹھائے گا یہ اصل سوال ہے‘‘۔

بھارتی فلموں پر پابندی کی تاریخ

پاکستان میں بھارتی فلموں کی اگر تاریخ میں جائیں تو 1965 کی پاکستان بھارت کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جو 2007 تک برقرار رہی۔ ان 42 سالوں میں پاکستانی فلمی صنعت انحطاط کا شکار ہوکر بند ہوگئی یہاں تک کہ 2005 میں ایک بھی فلم نہیں بنی اور اس دوران بیشتر سینما گھر ٹوٹ کر شاپنگ مال یا شادی ہال میں تبدیل ہوگئے۔

سال2007 میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے محدود پیمانے پر بھارتی فلموں کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تاہم اس کا مکمل اطلاق 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ کیونکہ سینما کا کاروبار اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کا خاندانی کام رہا ہے اس لیے انہوں نےاس میں گہری دلچسپی لی۔

واضح رہے کہ بھارتی فلمیں پاکستان میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شمار ہوتی تھیں اور اس پالیسی کے تحت  بھارتی فلموں کی محدود تعداد کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنٰی یا این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ نمائش کے لیے سند یا سرٹیفیکیٹ جاری کرتا تھا۔

بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں سرمایہ کاروں نے نئے سینما گھروں کی تعمیر میں ایک بار پھر دلچسپی لینا شروع کی اور اگلے پانچ سال میں پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی ملٹی پلیکس سینما تعمیر ہوئے۔ سینما کی تعمیر اور اسکرینز کی تعداد بڑھنے سے پاکستانی پروڈیوسرز کو حوصلہ ملا اور انہوں نے بھی فلمیں بنانا شروع کردیں اور 2014 کے بعد ’نامعلوم افراد‘، ’ایکٹر ان لاء‘ ، ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ جیسی پاکستانی فلمیں بنیں جنہوں نے باکس آفس پر راج کیا۔ تاہم پھر بھی یہ تعداد محدود ہی رہی۔

ستمبر 2016 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں واقع اُڑی کیمپ پر ہونے والے حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے بھارت میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی، جس کے جواب میں پاکستان میں بھی سینما مالکان نے از خود بھارتی فلموں کی نمائش روک دی تھی۔  تاہم یہ خود ساختہ پابندی دسمبر میں اٹھا لی گئی لیکن سرکاری کاغذی کارروائیوں اور مختلف اجازت نامے درکار ہونے کی وجہ سے مزید دو ماہ تک کسی بھی بھارتی فلم کی پاکستان کے سینما میں نمائش نہ ہوسکی۔

ان پانچ ماہ کے دوران پاکستانی سینما جانے والوں کی تعداد ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی۔ سینما مالکان کے مطابق جو پاکستانی فلمیں چل رہی تھیں انہیں بھی شدید نقصان ہوا کیونکہ سینما میں لوگوں کی آمد میں شدید کمی واقع ہوگئی جس کے نتیجے میں نمائش کے لیے موجود پاکستانی فلموں کو بھی نقصان ہوا اور کئی شہروں میں زیر تعمیر سینما بھی روک دیے گئے۔

اب آنے والی عید الفطر پر دو پاکستانی فلمیں ’چھلاوا‘ اور ’رانگ نمبر 2‘ کی نمائش کی جائے گی جن کی کامیابی یا ناکامی کا براہِ راست اثر پاکستانی سینما کےمستقبل پر پڑےگا۔

DW

Comments are closed.