ظفر آغا
مسلمان کرے تو کرے کیا! موب لنچنگ ہو، اشتعال میں وہ سڑکوں پر نکل پڑے اور احتجاج کرے یا صبر و سکون سے ہر ذلت و خواری برداشت کرے! راقم الحروف نے پچھلے ہفتے اس موضوع سے متعلق اردو اور ہندی زبانوں میں ’ہوش کے ناخن لیں مسلمان، ورنہ مِٹ جائیں گے‘ عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ راقم الحروف کو یہ بتاتے ہوئے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ دونوں زبانوں کو ملا کر اس مضمون کو 30 ہزار سے زیادہ مرتبہ پڑھا گیا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی بڑی تعداد میں اس مضمون کو شیئر کیا گیا اور اس پر مباحثہ بھی ہوا۔
اس سلسلے میں میری ادنیٰ رائے یہ تھی کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں کسی قسم کی ’اسٹریٹ پالیٹکس‘ یعنی خالص مسلم بینر تلے نعرۂ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ جلسے، جلوس اور احتجاج کی سیاست مسلم مفاد میں ہرگز نہیں ہوگی۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اگر مسلمان پہلے سڑکوں پر نکلے گا تو سنگھ اور بی جے پی دیکھتے دیکھتے ہندو رد عمل پیدا کر دیں گے اور پھر وہی ہوگا جو سنہ 1992 میں جب بابری مسجد تحفظ کی تحریک چلائی تو نعرۂ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ ہزاروں مسلمان سڑکوں پر نکل پڑے۔ بعد میں پھر وشو اہندو پریشد نے ہندو رد عمل پیدا کر بابری مسجد مسمار کر دی اور ساتھ میں ہزاروں مسلمان مارے بھی گئے۔
اسی طرح ابھی دہلی میں اسکوٹر پارکنگ کی چھوٹی سی بات پر ایک مسلم نوجوان کا ہاتھ کچھ ہندو نوجوانوں نے توڑ دیا۔ دوسری صبح مسلم نوجوانوں نے اشتعال میں آ کر جلوس نکالا۔ پتھراؤ ہوا۔ اس تصادم میں ایک مندر ٹوٹ گیا۔ ٹی وی کے ذریعہ پورے ملک میں شور مچ گیا کہ مسلمانوں نے مندر توڑ دیا۔ سنگھ نے سارے ملک میں مسلم امیج یہ بنا دی کہ صاحب مسلمان تو ہوتا ہی ’ہندو دھرم وِرودھی‘ ہے۔ دنگے ہوئے۔ درجنوں مسلم نوجوانوں کو پولس اٹھا لے گئی۔ ان کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ پھر چند روز بعد وشوا ہندو پریشد نے اسی علاقے میں ایک فاتح فوج کی طرح پولس کی حفاظت میں خالص مسلم محلوں میں ’شوبھا یاترا‘ نکالی اور پھر مورتی اس ٹوٹے مندر میں نصب ہوئی۔ مسلمان خوف سے اپنے گھروں میں کانپتے رہے۔ یہی حال میرٹھ اور سورت جیسے دیگر درجنوں شہروں میں ہوا جہاں موب لنچنگ کے خلاف جلوس نکالا گیا تھا۔
پچھلے مضمون کا نچوڑ اس بار پھر اس لیے پیش کیا گیا کہ اس بار جو نئے قاری اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں انھیں معاملہ پتہ ہونا ضروری ہے۔ خیر، میری رائے یہ ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں ’اسٹریٹ پالیٹکس‘ مسلم حق میں قطعاً نہیں ہے۔ اس رائے پر جو مباحثہ ہوا اس میں تین طرح کی باتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ کوئی 95 فیصد قاری جنھوں نے اپنی رائے دی وہ راقم الحروف کی دلیل سے متفق تھے۔ لیکن کچھ افراد اس کے خلاف بھی تھے بلکہ میری رائے پر برہم تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جس کا کہنا یہ تھا کہ میری رائے مناسب تو لگتی ہے لیکن اگر احتجاج نہیں تو پھر مسلمان کرے کیا!
جو حضرات میرے خیال سے متفق ہیں ان کا شکرگزار ہوں۔ جو متفق نہیں، ان کا بھی شکرگزار ہوں۔ لیکن اس مضمون میں پہلے ان کا جواب دے رہا ہوں جو مجھ سے متفق نہیں ہیں۔ اس تعلق سے جو باتیں کہی گئیں اس کا لب و لباب یہ تھا کہ اسلام بزدلی کی اجازت نہیں دیتا اس لیے سڑکوں پر نکل پڑنا اور صدائے احتجاج بلند کرنا مناسب ہے۔ اس سلسلے میں بصد احترام راقم یہ کہنا چاہتا ہے کہ اسلام کی یہ سمجھ قطعاً تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کے منافی ہے۔ خود اگر رسول کریم ؐکی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ رسولؐ کی زندگی کے دو دور ہیں۔ اعلان نبوت ؐکے بعد پہلا ’مکی دور‘ جہاں رسول ؐنے اپنی زندگی کے دس برس اشاعت اسلام میں گزارے۔
اس پورے دس برس کے دور میں رسولؐ اور دوسرے مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ حد یہ ہے کہ ہر مسلمان واقف ہے کہ ایک یہودی عورت روز رسولؐ پر گندگی پھینکتی تھی۔ مگر رسول ؐاسی راستے سے گزرتے تھے۔ ایک روز اس عورت نے کوڑا نہیں پھینکا تو رسول ؐنے دریافت کیا کہ آج اس نے کوڑا کیوں نہیں پھینکا! پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ رسولؐ وراً اس عورت کی عیادت کو پہنچ گئے۔ رسول ؐ کی اس شفقت کو دیکھ کر اس عورت نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ اس پورے مکی دور میں دس برس مسلسل ہر قسم کی مصیبتیں اٹھانے کے باوجود رسول ؐ یا مکی مسلمان نے کسی قسم کا احتجاج نہیں کیا بلکہ صبر کا راستہ اختیار کر دشمنوں کا دل جیتا۔
پھر رسول ؐ کی زندگی کا دوسرا ’مدنی دور‘ شروع ہوا جہاں شروع میں یہودیوں کے ساتھ مفاہمت سے کام لیا۔ جب مسلم تعداد بڑھتی گئی تب جنگوں کا دور شروع ہوا اور رسول ؐ ہر جنگ میں کامیاب رہے۔ لیکن اس دور میں بھی جب رسول ؐ کا لشکر پہلی بار فتح مکہ کے لیے گیا تو مکہ والوں نے ایک سال کی مہلت مانگی تو صلح حدیبیہ کے معاہدے کے ساتھ مکہ والوں کو ایک سال کی مہلت دے دی۔ میں کوئی بڑا عالم دین نہیں ہوں لیکن اتنا تو ہر مسلمان کی سمجھ میں آتا ہی ہے کہ اشتعال میں دشمن کے مقابلے اٹھ کھڑا ہونا اسلام اور سیرت نبویؐ کی روش نہیں۔ یعنی اگر آپ دشمن سے کمزور ہیں تو مکی دور کی طرح صبر و شکر سے کام لیں، لیکن ہمت نہ ہاریں۔ آخر میں فتح آپ کی ہوگی۔
ہندوستانی مسلمان کے موجودہ صورت حال ایسے نہیں کہ وہ اشتعال میں سڑکوں پر نکل پڑیں اور پھر اس کے دشمن اس کو کہیں کا نہ چھوڑیں جیسا کہ بابری مسجد کے وقت یا پھر ابھی دہلی، میرٹھ اور سورت جیسے شہروں میں ہوا۔ راقم الحروف نے پچھلے مضمون میں یہ بات قطعاً نہیں کہی کہ مسلمان کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کسی قسم کا احتجاج کرنا ہی نہیں چاہیے۔ میری رائے صرف یہ تھی کہ اگر خالص مسلم بینر مثلاً جماعت اسلامی و جمعیۃ علماء ہند یا کسی اور اسلامی بینر یا پلیٹ فارم سے یہ احتجاج ہوا تو پھر وشو ہندو پریشد یا ہندو سینا کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ بھی ’جے شری رام‘ کے نعرے کے ساتھ ہندو مجمع کھڑا کریں۔ اور پھر اس کا نتیجہ بابری مسجد انہدام سے لے کر اب تک جو ہوا ہے وہی ہوگا۔
یعنی موجودہ صورت حال میں مکی دور کی صبر و شکر کی حکمت عملی سب سے بہتر حکمت عملی ہوگی۔ لیکن کب تک مسلمان خاموش رہے! موب لنچنگ ہو اور وہ اپنے جمہوری اختیار، احتجاج کا بھی استعمال نہ کرے۔ یہ ممکن نہیں۔ اب ان حالات میں آخر مسلمان کیا کرے، کہاں جائے اور انصاف کیسے مانگے۔
یاد رکھیے کہ ابھی ڈیڑھ ماہ قبل بی جے پی کو جو کامیابی ملی ہے اس میں اس کو کل 38 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یعنی ابھی بھی اس ملک کے ہندو طبقہ کی اکثریت بی جے پی کے خلاف ہے۔ اس لیے اگر کوئی احتجاج ہوتا بھی ہے تو خالص مسلم احتجاج کے بجائے ہندو–مسلم کا ملا جلا احتجاج ہی ہونا چاہیے۔ ہر شہر میں سینکڑوں ہندو افراد اب بھی ایسے مل جائیں گے جو آپ کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ نعرۂ تکبیر لگائیں گے تو وہ بھی آپ کے ساتھ نہیں آئیں گے۔ آپ کی جدوجہد دینی شکل کے بجائے اگر آپ کے آئینی حقوق کے نام پر ہوگی تو بی جے پی کو بھی اس پر ہندو رد عمل پیدا کرنا مشکل ہوگا۔ اس لیے موجودہ حالات میں بڑے بڑے جلوس کے بجائے گاندھیائی حکمت عملی یعنی بھوک ہڑتال کے ذریعہ احتجاج زیادہ کارگر ہوگا۔
اس لیے راقم کی ادنیٰ رائے میں اس وقت بہتر یہی ہوگا کہ مکی دور کے صبر و شکر کی حکمت عملی پر عمل ہو۔ لیکن احتجاج کی ضرورت پڑے تو بی جے پی مخالف غیر مسلموں کے ساتھ مل کر احتجاج کیجیے۔ محلے–محلے پڑھے لکھے مسلم افراد اس سلسلے میں آگے آئیں۔ اگر کوئی برا وقت پڑتا ہے تو آپس میں رائے مشورے کے ساتھ ایک فیصلہ کریں اور مشکل میں آنے والوں کی مدد کریں۔ پرانی دہلی میں ایسا گروہ بن گیا ہے جو کام کر رہا ہے۔ اسی طرح ہر شہر میں ایسا گروہ بننا چاہیے۔ لیکن ابھی اسٹریٹ پالیٹکس سے گریز کیجیے۔ ایسا نہیں کہ یہ وقت کٹنے والا نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ 1857 کا المیہ گزرا، 1947 کے بٹوارے کا جنون بھی ختم ہوا۔ مودی لہر بھی ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ لیکن ابھی صبر ہی صحیح راستہ ہے۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا
One Comment