انٹرویو۔ ثقلین امام
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطِف میاں نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ وہ بیرونی قرضے ہیں جنھیں غیر پیداواری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ڈاکٹر عاطف میاں کو پچیس ‘روشن ترین‘ نوجوان ماہرینِ اقتصادیات میں شامل کیا تھا۔ انھیں تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انھیں اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کی شمولیت ممکن نہ ہوسکی۔
ڈاکٹر میاں نے سنہ 2007 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ بننے والے گھروں کے قرضوں سے شروع ہونے والے دیوالیے کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ تجزیہ ایک کتاب ‘ہاؤس آف ڈیٹ‘ (قرضوں کے مکان) کے نام سے شائع ہوا تھا۔
بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ ‘اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرپشن نقصان تو پہنچاتی ہے، لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جو ترقی کا ماڈل اپنایا ہے یہ اب بنیادی طور پر چل ہی نہیں سکتا ہے۔‘
‘کرپشن ہو یا نہ ہو، اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ ماڈل اب مستقل بنیادوں پر چل سکے۔ جب تک آپ بیرونی طاقتوں پر انحصار کریں گے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے، آپ کا ترقی کا یہ ماڈل اب چل ہی نہیں سکتا‘۔
قرضوں والا ماڈل کیا ہے؟
انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ چین یا مشرقِ بعید کے ایشیائی ممالک، مثلاّ کوریا وغیرہ کی مثال لیں تو ان سب نے ان کی ترقی کی اصل اور بنیادی وجہ، ملک کی اندرونی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے اور ان ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں کہ ان قرضوں کو اگر ایسے منصوبے میں لگایا جائے جن سے اتنی آمدن نہ ہو جن سے یہ قرضہ اتارا جا سکے تو پھر ایسے قرضے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسی لیے نہ صرف ہم نے قرضے لیے بلکہ ان قرضوں کی ایسی جگہوں پر سرمایہ کاری کی کہ اس سے معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اور ان قرضوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکا۔ ‘اسی لیے ہم بار بار ائی ایم ایف کی طرف جاتے ہیں۔ بار بار بیل آؤٹ کی طرف جاتے ہیں‘۔
سنہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اب تک پاکستان اپنے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بارہ مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کر چکا ہے اور موجودہ حکومت کا رجوع کرنا تیرھویں مرتبہ ہے۔
بار بار آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو اقتصادی ماڈل اپنایا ہوا ہے اس میں ایسی خرابیاں ہیں کہ ہر چار یا پانچ سال کے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال بہت بگڑ جاتی ہے۔
قرضوں والے اکنامک ماڈ ل کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس میں سب سے بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں یہ سوچا جاتا ہے کہ باہر سے قرضے لے کر یا کسی قسم کی امداد لے کر ملک میں ترقی دکھائیں۔ ‘اس ماڈل میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بیرونی پیسہ آرہا ہوتا ہے تو اقتصادی ترقی کے اشارے نظر آرہے ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں اس روپیہ سے نظر آنے والی ترقی عارضی اور وقتی ہوتی ہے، کیونکہ جیسے ہی وہ روپیہ آنا بند ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ معیشت بھی سست ہونا شروع کردیتی ہے۔
باوجود اس کے کہ اس بیرونی قرضوں سے ملک میں سرمایہ کاری تو ہوتی ہے لیکن یہ سرمایہ کاری ایسے منصوبوں میں کر دی جاتی ہے جن سے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
‘اس لیے جب قرضے بند ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھیں واپس کرنا ہے اور جب وہ منصوبہ جس پر سرمایہ کاری ہوئی ہوتی ہے اس سے آمدن نہیں ہوتی ہے تو پھر اس منصوبے کے قرض کی رقم واپس کرنے کے لیے پھر سے قرضہ لینا پڑتا ہے، جسے بیل آؤٹ کہتے ہیں‘۔
ڈاکٹر عاطف میاں کے مطابق، بیل آؤٹ کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، معیشت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور آپ کے پاس زرِ مبادلہ بھی نہیں ہوتا ہے تاکہ آپ بیرونی قرضے کی ادائیگی کرسکیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ آئی ایم ایف کا ایک ہدف کہ پاکستان اپنے محصولات (ٹیکسوں کے ذریعے آمدن) کو مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد حصے سے بڑھا کر پندرہ فیصد کرے، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ یہ ہدف حاصل کرنا ‘ہے تو نہ صرف مشکل، لیکن اگر یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملک میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ ٹیکس ریوینیو میں اتنا بڑا اضافہ ہوگا‘۔
‘دنیا کے اگر دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو (ٹیکسوں کا مجموعی قومی پیداوار میں تناسب) اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر عالمی معیار سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا یہ ہدف زیادہ مشکل نہیں ہے‘۔
اس سوال پر کے پاکستان یہ ہدف گزشتہ ادوار میں کیوں نہیں حاصل کرسکا، ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کا اگر حل ڈھونڈیں گے تو اس کے حل ملک کے اندر ہی نظر آئیں گے۔
موجودہ حکومت کی پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ پاکستان کا اس وقت بنیادی مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہیں جس کے لیے برآمدات میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔
‘آپ گھر بنا کر انھیں برآمد تو نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔ جو کام آپ کو کرنا چاہئیے یہ اس سے بالکل الٹ کام کریں گے اگر آپ ایسا کریں گے۔ (اگر یہ گھر بننا شروع ہو گئے) تو آپ کا کثیر سرمایہ اور لیبر ایک ایسے کام میں لگ جائے گی جسے آپ برآمد نہیں کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس سے درآمدات بڑھیں گی۔۔۔۔ اور بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ پیچیدہ تر ہوگا‘
جب ڈاکٹر عاطف میاں سے پوچھا کہ اس ہدف کو حاصل نہ کرپانے میں بڑا مسئلہ کیا ہے، آیا تقسیمِ دولت مسئلہ ہے، چوری ہے یا دفاعی بجٹ ہے تو انھوں نے کہا کہ ‘اصل مسئلہ ریاست کی صلاحیت میں کمی ہے‘۔
‘اگر آپ نے کوئی بھی کام کرنا ہو، خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت سمیت کئی مسائل ہیں، ایسے ملک میں ریاست میں اپنے اندر صلاحیت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے کام سرانجام دے سکے اور انتظامی کام کر سکے۔ اس صلاحیت کو پیدا کرنا ہوگا اور بہتر کرنا ہوگا۔‘
ان کے مطابق یہ صلاحیت پاکستان کی ریاست کو خود سے پیدا کرنا ہو گی، یہ کام آپ کے لیے چین یا سعودی عرب یا امریکہ سے آکر تو کوئی نہیں کرے گا، یہ سب کام پاکستانی اداروں کے ذریعے ہی کرنا ہے، یہ صلاحیت تو خود ہی پیدا کرنا ہوگی لیڈرشپ بھی خود پیدا کرنا ہوگی۔
اس سوال پر کہ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب رجوع کرنے میں دیر کی جس کی وجہ سے تکالیف بڑھ گئی، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا ‘جس حالت میں پاکستان تھا اس میں نہ صرف موجودہ حکومت نے دیر کی بلکہ یہ حالت نواز شریف کی حکومت کے آخری سال میں بھی بہت واضح تھی‘۔
‘تو ان حالات کا احساس نواز شریف کی حکومت کو اپنے آخری سال میں کرلینا چاہئیے تھا، لیکن انھوں نے تاخیر کی کیونکہ وہ الیکشن میں جا رہے تھے‘۔
ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو قرضوں کی لت لگی رہی ہے۔ ‘یہ ایک بری عادت ہے جو ہمیں نشے کی طرح لگ چکی ہے۔ ماضی میں جو دو حکومتیں آئیں، بلکہ جب بھی حکومتیں انتخابات لڑ کر آتی ہیں تو ان پر دباؤ ہوتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو کچھ دکھانا ہے۔‘
ان کے مطابق کارکردگی کے دکھانے کو دو راستے ہیں، یا تو مشکل طریقہ استعمال کریں جو کے دائمی طریقہ ہے، یعنی نظام کو بہتر بنائیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔
‘اس طرف جانے کی بجائے وہ آسان رستہ ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح قرضے لے کے (کام چلا لیں)، لیکن قرضہ لینے کا مطلب ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے اپنی اگلی نسل کا مستقل گروی رکھ دیا ہو۔‘
BBC.COM
♦