سالار کوکب
جن ذرائع سے افغانستان کی مقدس جنگ کے لیے رقوم کا بندوبست کیا گیا ان میں سے ایک ذریعہ منشیات کی سمگلنگ تھا ۔ اس سمگلنگ میں مقامی اور بین اقوامی کھلاڑیوں کے ایک اہم پارٹنر ایوب آفریدی مرحوم تھے۔
جنگ کے دوران ہی 1983 میں بلوچستان کے ایک مقام سے 17 ٹن چرس برآمد ہونے پر ایوب آفریدی مرحوم کے وانٹ جاری کیے گئے تین سال کے بعد بلجیم میں ساڑھے چھ ٹن چرس کی سمگلنگ میں ان کا نام آیا اور انہیں مطلوب قرار دیا گیا – تاہم جنگ کے خاتمے تک مغربی میڈیا میں منشیات کی سمگلنگ کا معاملہ اچھالا نہیں جاتا تھا ۔
مقدس جنگ ختم ہو گئی ۔ لیکن ایوب آفریدی مرحوم اور دوسروں نے آزادانہ طور پر اپنا کام جاری رکھا – اس کام کے بہت سے روٹس میں سے ایک دوبئی روٹ تھا ۔ کابل جلا ل آباد سے حاجی قدیر کے جہازوں کے ذریعے ہیروئن دوبئی جاتی تھی – وہاں سے الیکٹرنک کا سامان آتا تھا جس کی پشاور میں سپلائی ایوب آفریدی مرحوم کے نیٹ ورک کے ذریعے ہوتی تھی ۔ اب بین الاقوامی کھلاڑیوں کو فکر لاحق ہونا شروع ہوئی کہ اس دھندے کو ختم کیا جائے۔
ایوب آفریدی مرحوم 1990 کے انتخابات میں فاٹا سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کرپھر سے مقامی کھلاڑیوں کی ضرورت بن گئے تھے ۔ پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کے وزیراعظم کے امیدوار میاں محمد نواز شریف کی حمایت کی ۔ 1992 میں وہ قبائلی عمائدین کے اس وفد کا حصّہ تھے جسے افغانستان میں متحارب فریقین میں صلح کے لیے بھیجا گیا ۔
جب مقامی کھلاڑی نواز شریف کی حکومت کے درپے ہوئے توایوب آفریدی مرحوم پیپلز پارٹی کی طرف آ گئے ۔ 1993کے الیکشن میں وہ کوالیفائی نہ کر سکے – امریکیوں نے نواز شریف کے پہلے دور سے ہی منشیات کا ذکر کرنا شروع کر دیا تھا ۔ اس دوران ایوب آفریدی مرحوم پر دباؤ بڑھ رہا تھا ۔
فروری 1995میں دو اداروں کو ضم کرکے انٹی نارکوٹک فورس بنائی گئی ۔ دسمبر 1995میں ایوب آفریدی مرحوم نے خود کو امریکیوں کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کر دیا ۔امریکہ میں ایوب آفریدی مرحوم کو بلجیم میں منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں 42 مہینوں کی سزا سنائی گئی ۔
انہی دنوں امریکی حکام یہ اشارے دے رہے تھے کہ پاکستانی حکام بھی منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں ۔ فروری 1997میں امریکی حکام نے ڈلاس ائیرپورٹ پر پاکستان ایئر فورس کے دو حاضر سروس افسران کو دو کلو منشیات کے ساتھ گرفتار کیا ۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان حکام نے امریکی ایمبیسی کے اہلکار /مخبر ایاز بلوچ کو گرفتار کر لیا ۔ اس نے ‘قبول ‘ کیا کہ اس نے ان افسران کو ہیروئن کی سمگلنگ کی ‘ترغیب‘ دی تھی ۔ بلوچ کو اس جرم میں دس سال قید با مشقت سنائی گئی ۔پاکستانی حکام نے سختی سے اس بات کی تردید کی کہ اس سے نشہ اور ادویات اور تشدد کے ذریعے اقرار جرم کروایا گیا ہے ۔
ایوب آفریدی مرحوم جب سزا مکمل کرکے پاکستان پہنچے تو انہیں بلجیم سمگلنگ کے جرم میں ہی سات سال کی قید سنائی گئی – تاہم نائن الیون کے بعد مقامی اور بین القوامی کھلاڑیوں کو ایک بار پھر ان کی ضرورت پر گئی – صرف چند ہفتے کی سزا پوری کرنے کے بعد ہی انہیں رہا کر دیا گیا ۔
افغانستان میں طالبان کی شکست کے بعد ایوب آفریدی مرحوم کی ضرورت پھر ختم ہو گئی – اس کے بعد ان کی مفروری ، جائیداد کی ضبطی کے معاملات شروع ہوئے جو ان کی موت تک جاری رہے ۔
نوٹ – یہ ایک بہت پیچیدہ اور طویل کہانی کا مختصر سا خلاصہ ہے ۔ اصل کہانی میں بہت سے دوسرے سمگلرز کے نام بھی ہیں ۔ اس کا بھی ذکر ہے کہ آصف زرداری کا نام ان قصوں میں کہاں کہاں لیا گیا ؟ کہاں نواز شریف کا نام آیا ؟ ایوب آفریدی مرحوم کے امریکیوں سے کیا معاملات طے ہوئے ؟ انہیں امریکہ میں کس طرح کی جیل میں رکھا گیا؟انہیں کسی قانون کے بغیر پاکستانی جیل سے رہا کرکے خیبر ایجنسی کس نے پہنچایا ؟ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں منشیات سے جڑے معاملات کو سیاسی مفادات کے تحت نپٹانے کی تاریخ بہت طویل ہے ۔
♦