ڈی اصغر
یہ کوئی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اک عجب نظارہ دکھائی دیا۔ حکومت وقت کے وزیر، مشیر، سفیر اور جی حضوری کے تمام ماہرین اعلی و حقیرایک عظیم الشان استقبال کی خاطر جمع تھے۔ ہمارے وزیر اعظم محترم اپنے دورہ امریکہ سے ایک فاتح بن کر لوٹ رہے تھے۔ اب حاسدین ان تمام شائقین جو چشم ماروشن دل ماشاد تھے، ان کو درباری کہنے سے باز نہ آئے، حالانکہ ایسا کہنا قطعی نامناسب اور نا معقول ہے۔
بے چارے وزیر اعظم جب لاونج میں جلوہ افروز ہوئے تو ایک بھگدڑ سی مچی کہ کون اپنی ور مالا جناب کی گردن پر سب سے پہلے آراستہ کرسکے۔ لیکن سب کو اپنی اوقات کا بخوبی ادراک تھا۔ سو جناب نا اہل ترین، عرف اے ٹی ایم نمبر ون، کو یہ سعادت سب سے پہلے نصیب ہوئ۔ پھر اسی حساب سے بقیہ تمام کو یہ فریضہ اپنی مالی استطاعت کے حساب سے انجام دینے کا اختیار میسر آیا۔ جناب وزیر اعظم نے اپنی کامیابیوں کا کچھ خلاصہ اپنے ان مداحین کے گوش گزار کیا اور وہ بھی حسب توقع و روایت ایک دم فی البدیہہ۔
حاسدین اور ناقدین سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپنے دل کے پھپولے پھوڑتے نظر آئے کہ آخر ایسا کیا تیر مار کے لوٹے ہیں۔ کوئی بڑا تجارتی معاہدہ، کوئی امدادی پیکج، کوئی حاصل کوئی حصول۔ مگر ان تمام ایسے فضول کے اعتراضات اٹھانے والوں کو نظر انداز کرتے، ہمارے نشریاتی اداروں اور دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی اسے ایک بہترین اور کامیاب دورہ قرار دے دیا۔
پیپلز پارٹی کے جواں سال رہنما، جناب بلاول بھٹو ذرداری نے ایک بر جستہ پھبتی کسی کہ جو قبولیت انہیں اپنے عوام سے میسر نہیں، اس کی تلاش میں موصوف واشنگٹن تک جا پہنچے۔ وہاں مقیم جناب صدر ٹرمپ سےنہ صرف شاباشی پا کر لوٹے بلکہ اپنے ملک کے باسیوں کو بھی ایک پیغام بھجوانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ کیا پیغام تھا؟ پیغام یہ تھا کہ بھائی دنیا کے طاقت ور ملک اور اس کے ایسے صدر، جس سے ملاقات قسمت والوں کو میسر ہے، اس سے تعریف و توصیف اپنی قلغی میں سجا کر لوٹے ہیں۔ خبردار جو کسی نے اب موصوف کو “سیلیکٹڈ” ہونے کاطعنہ دینے کی گستاخی کی ہو تو۔
پر وہ کیا ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ اپنی تقاریر، بیانات اور ٹوئیٹس میں لفظ “سیلیکٹڈ” کو دہرائے جانا ہے تاکہ ہر بار اسے پڑھ،سن اور دیکھ کر خود وزیراعظم اور ان کے مداحین کو سو نشتروں کی بار بار چھبن سی محسوس ہو۔
واشنگٹن آمد پر ہمارے وزیر اعظم کا خاطر خواہ استقبال نہ ہوا۔ اس بے کار کے قضئیے کو حاسدین نے خوامخواہ کا مسئلہ بنایا۔ حالانکہ ایک عدد مقامی خاتون موجود تھیں اور ہمارے وزیر خارجہ بہ نفس نفیس کسی اووبر کے ڈرائیور کی طرح انہیں وصولنے ڈلس ائیر پورٹ پر بھی موجود تھے۔
بھلا ہو بھائی زلفی بخاری کا جن کی کرم فرمائی اور چند ایک صاحب ثروت مقامی مداحین کی بدولت جناب وزیر اعظم صاحب نے یہاں واشنگٹن اور اس سے ملحق شہروں سے آئے کثیر پاکستانی امریکن شہریوں کو اپنے 2014 کے تاریخی ڈی چوک دھرنے کی پرفارمنس سے لطف اندوز کیا۔ اس روح پرور اور ایمان افروز خطاب کی پنچ لائن اپنے سیاسی حریف اور آج کل اڈیالہ جیل میں اسیر و علیل سابق وزیر اعظم کے کمرے سے ائیر کنڈیشنر اور ٹی وی کی ضبطگی تھی۔
موصوف نے حسب روایت اور حسب موقع اپنی سب سے بڑی کامیابی یعنی اپنے سیاسی مخالفین کی گرفتاری اور نظر بندی کی پر لطف داستانیں اور قصص بھی چھیڑے۔ پاکستانی درباری میڈیا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ لاکھوں کا مجمع کہہ سکیں۔ مجبورا تیس ہزار پر اکتفا کرنا پڑا۔ برا ہو کسی من چلے کا جس نے وہاں کیپیٹل ون ایرینا میں موجود انتظامیہ کی خاتون سے استفسار کیا۔ جس سے تعداد نو سے ساڑھے نو ہزار پر جا کر سمٹی۔
درباری میڈیا نے ان کی صدر ٹرمپ سے بہ نفس نفیس ملاقات پر بھی قصیدے گوئی کی نئی داستانیں رقم کیں۔ کیسے ہمارے خان نے ایک اکھڑ اور بد دماغ اور بد مزاج صدر ٹرمپ کو چاروں خانے چت کردیا۔ کیسے صدر ٹرمپ ہمارے دانا وزیر اعظم کی واضح افغان پالیسی کے مداح ہوئے اور کیسے اب قریب اٹھارہ برس کے بعد افغانستان میں وہی کرنے چلے، جس کا ہمارے عظیم وزیر اعظم روز اول سے کہتے چلے آئے۔بھائی طالبان سے مزاکرات کرو اور ان کے مطالبات تسلیم کرو اور افغانستان سے واپس نکل لو۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مجبوری بھی یہ ہے کہ موصوف نے اپنے مداحین سے افغانستان کی بے سود جنگ سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ سو یہ انخلا اب ان کی سیاسی مجبوری بھی ہے اور ان کو دنیا پر یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک فاتح کے طور پر وہاں امن قائم کر کے باالآخر اپنے فوجیوں کو اس جنگ سے واپس لے آئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ببانگ دہل وائٹ ہاوس میں کہاکہ ان کی روز اول سے یہی حکمت عملی رہی ہے کہ طالبان سے مزاکرات، مذاکرات اور صرف مذاکرات ہی اس مسئلے کا حل ہے۔
اب کند ذہن ہی سہی، پر لوگ باگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں۔ امریکہ بہادر کے ایلچی خاص جناب زلمے خلیل زاد اس طالبان مزاکرات پروجیکٹ پر کچھ عرصے سے عمل پیرا دکھائ دیتے ہیں۔ قطر میں بھی کچھ آنیاں جانیاں چل رہی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے اس سارے عمل میں کون سی ایسی ترکیب استعمال کی جو اس سے قبل نہ بروئے کار لائ گئ ہو۔ اگر جناب اتنے ہی اہم تھے اس سارے عمل میں تو جناب کو سعودی شہزادے اور پھر داماد اول جیرڈ کشنر کی سفارش پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی درخواست کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
بھلا ہو ہمارے استاد جناب وسعت اللہ خان صاحب کا جنہوں نے مملکت خداداد کے لئیے کبھی بخشو میاں کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ جب بھی مالکوں کو کوئ کام کروانا ہوتا ہے تو بخشو میاں کو آواز دے دیتے ہیں اور بخشو میاں ہاتھ باندھے کورنش بجا لاتے ہیں۔ اب کی بار مالکان کو کچھ رنجش کچھ غلط فہمی سی ہو گئی تھی۔ تو بخشو میاں نے ہماری کراچی کی سڑک کی زبان کا “پووا” لگوایا اور آداب تسلیمات کا تبادلہ کر ڈالا۔
وہ کیا ہے کہ افغانستان میں تو جو ہورہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے۔ قیاس آرائیاں تو یہ بھی ہیں کہ دکھا کر افغانستان کے نقشے کہیں بات ایران پر تو نہیں کی جارہی ۔ امریکی صدر نے متعدد بار اپنے تلخ خیالات کا اظہار کیا ہے اس ملک کے بارے۔ کہیں بخشو میاں کی خدمات اس ملک کے لئیے تو درکار نہیں۔ رہی بات افغانستان کی, تو گو کہ امریکہ طالبان سے کوئی ایسے معاہدے کا متمنی ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد وہ حکومت کا حصہ بن جائیں اور مزید کوئ جارحیت نہ کریں اور خانہ جنگی سے گریز کریں۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ہمارے منتخب وزیر اعظم یا ہمارے سپہ سالار اعلی اس بات کی ضمانت دینے کے قابل ہیں؟
♦