کسی دل جلے نے کیا خوب کہا کہ پاکستان میں اقتدار کے حصول اور اس پر براجمان رہنے کے لئے تین ،،الف،، درکار ہوتے ہیں۔ یعنی امریکہ، آرمی اور اسلام۔ بیوروکریٹ آمر غلام محمد اور سکندر مرزا، فوجی آمر جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اسی تکونی کرشمے کی طفیل اقتدار پر قابض رہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اسی کرشماتی فارمولے کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔
اسلام کا نام تو محض عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ پاکستان کی تاریخ کے جابر ترین آمر جنرل ضیا نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے مذہب کے بے دریغ استعمال، جھوٹ اور مکاری کے ریکارڈ قائم کئے۔ جنرل ضیا کے بعد عمران خان ریاست مدینہ کے نام پر مذہب کا نام استعمال کر کے عوام کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کے نئے ریکارڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آمروں نے اقتدار پر غیر آئین قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ملک کی خودمختاری کا سودا کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ بیوروکریٹ آمروں اور جنرل ایوب خان نے نام نہاد دفاعی پیکٹوں اور اقتصادی معاہدوں کے ذریعے ملک کو عالمی سامراج کی معاشی اور دفاعی غلامی میں دے دیا۔ جنرل ضیا نے جہاد کے نام پر ملک کو امریکی سی آئی ائے کے ہیڈ کوراٹر میں بدل دیا۔ جنرل مشرف نے افغانستان میں امریکی جنگ میں پاکستان کو دھکیلا۔ آمروں کی ملک اور عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک خودمختاری سے محروم ہوکر معاشی پسماندگی کی دلدل میں دھنستا گیا اور عوام غربت، بیماری اور جہالت کی چکی میں پستے رہے۔
آمرانہ ادوار میں پاکستانی حکومتیں امریکہ کے ساتھ ایک پیج پر ھونے کی دعویدار رہیں۔ آمر حکمران ملکی مفادات کو امریکی مفاداتی پیج کی قربان گاہ پر قربان کرتے رہے۔ عمران خان طاقتوروں کے پیج پر چپکنے میں دیر نیہں لگاتے۔ عسکری پیج پر تو وہ پہلے ہی چھلانگ لگا چکے۔ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ اور پاکستان کے ایک پیج پر ہونے کا یک طرفہ دعویٰ کر دیا ہے۔
حسب روایت یہ پیج پاکستان اور امریکی مشترکہ مفادات کا مشترکہ پیج نہیں۔ یہ افغانستان میں امریکی مفادات کا پیج ہے۔ آمروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عمران خان بڑی خوش اسلوبی اور مہارت سے امریکی مفادات کا پرچم تھامنے پر تیار ہو گئے۔ بقول شخصے عمران خان ایسا قدم طاقتور حلقوں کی اجازت کے بغیر کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ بیوروکریٹ اور فوجی آمر قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر خطے میں امریکی مفادات کو ترجیح دیتے رہے۔ جس کے عوض وہ امریکی تعاون سے عوام دشمن غیر جمہوری نظام کا دورانیہ بڑھاتے رہے۔عسکری اور امریکی پیج پر منتقل ھو کر، اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر عمران خان کس قدر امریکی مفادات کا تحفظ کر پائیں گے۔
کیا وہ طاقتور حلقوں کی پشت پناہی سے جمہوریت کے نام پر آمرانہ طرز حکومت مستحکم کر پائیں گئے۔ کیا عمران خان اپنے پشت پناہوں کی خواہش پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت ختم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گئے۔
دگرگوں معاشی حالات، روز افزوں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری، حکومتی نااہلی، ایک سالہ صفر کارکردگی اور سیاسی خلفشار، عمراں خان اور ان کے پشت پناہوں کے مذموم عزائم کے راستے کے بھاری پتھر ثابت ہوں گے۔ متحدہ اپوزیشن کے 25۔ جولائی کے جلسوں میں عوام کی بھر پور شرکت سے حکومت کے خلاف پائی جانے والی عوامی بے چینی کا اظہارہوچکا ہے۔
تاجروں، صحافیوں اور وکلا کی مزاحمت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملانے، فرشتوں کی پشت پناہی اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے باوجود معاشی بحران اور سیاسی خلفشار پر قابو پانا عمران حکومت کے لئے ممکن نظر نیہں آتا۔ تینوں الفوں کی کرشماتی تکون عوامی قوت کے سامنے تتر بتر ھو جائے گی اور پی ٹی آئی گرتے بکھرتے اقتدار کو سہارا نہیں دے پائے گی۔
♦