وزیر اعظم عمران خان سماجی علوم کے بارے میں اپنے کم زور اور ناکافی مطالعہ کا اظہار ایک سے زائد مرتبہ مختلف ملکی اور بین الاقوامی فورمز پر اپنی تقاریر اورسوشل میڈیا پر وقتا فوقتا اپنے ٹویٹس میں کرتے رہتے ہیں۔آج ایک بار پھر انھوں نے احساس پروگرام کی لانچنگ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے تاریخ اور مذہب اسلام بارے اپنی روایتی لا علمی کا بھرپور انداز میں اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ برطانیہ کی موجودہ ریاست دراصل ریاست مدینہ کی نقل ہے اور اگرمیں برطانیہ نہ جاتا تو مجھے پتہ ہی نہیں چلنا تھا کہ برطانیہ میں جو نظام اس وقت موجود ہے وہ دراصل اسلام کے ابتدائی دور میں قائم ہونے والی ریاست جسےوہ عام طور پر ریاست مدینہ کا نام دیتے ہیں سے مستعار ہے۔
وزیر اعظم اسلام کی تاریخ سے تو نا واقف ہیں ہی کیونکہ وہ جن تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے ان میں تاریخی علوم کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ان کی تقریروں اور بیانات سےظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے تاریخ عالم بالخصوص برطانیہ کے سیاسی اور سماجی ارتقا بارے کوئی ابتدائی کتاب بھی نہیں پڑھی کیونکہ اگر انھوں ایسا کیا ہوتا تو انھیں یہ ضرور پتہ چلنا تھا کہ برطانیہ میں اس وقت سماجی بہبود کا جو نظام کام کر رہا ہے اس کا ارتقا اور نشوونما کیسے اور کن قوتوں کی جدوجہد کی بدولت ہوئی تھی۔
برطانیہ کو دنیا بھر کے سماجی ارتقا کی ورکشاپ کہا جاتا ہے۔ پندرھویں صدی سے برطانیہ میں ہونے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں کی بدولت برطانیہ کے موجودہ سیاسی اور ریاستی نظام کے ابتدائی خدو خال کی بنیاد رکھی تھی۔ برطانیہ کو ترقی کی موجودہ منزل تک پہنچنے میں اس کی دوسروں ممالک پر قبضے اور ان کے ہمہ قسم کے وسائل کی لوٹ نےمدد کی تھی۔ پورے یورپ میں صنعتی انقلاب جنگوں اور کشت و خون کی بدولت ممکن ہوا تھا لیکن برطانیہ کا صنعتی انقلاب پرامن تھا کیونکہ اس کو پرامن بنانے میں ہندوستان کی معاشی لوٹ نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
اپنے مقبوضہ ممالک کی لوٹ سے حاصل ہونے والے سرمایہ سے برطانیہ نے صنعتی ترقی کی اور اس ترقی کی بدولت جن سماجی طبقات نے جنم لیا انھوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور اپنے معاشی اور سیاسی حقوق پیہم جدوجہد سے حاصل کیے تھے۔ چارٹسٹ تحریک ہو یا پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ برطانوی عوام نے اس میں ثابت قدمی اور جرات سے حصہ لیا تھا۔ برطانیہ کے عوام کو آج جو سماجی ،معاشی اور سیاسی حقوق حاصل ہیں وہ کیس نیک دل بادشاہ اور خدا ترس حکمران کی دین نہیں ہیں یہ برطانوی عوام کی جدوجہد کا ثمر ہیں۔
برطانوی ریاست جسے وزیراعظم عمران خان مدینہ ریاست کی نقل قرار دیتے ہیں، میں مذہب کی بنیاد پرکوئی تفریق نہیں ہے۔ تمام شہریوں کو مساوی قانونی حقوق حاصل ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور ریاست کے تمام ادارے اس کی رٹ کے پابند اور تابع ہیں۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کوا س سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
برطانوی ریاست کا نظام سیاست و معیشت ایک پورے سیاسی پیکج کا نام ہے یہ محض اس کا سماجی بہبود کا پروگرام نہیں ہے جس کی نقل اتارنے سے کام چل جائے گا۔ سماجی بہبود کے اس پروگرام کے ساتھ جڑے دیگر لوازامات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کیونکہ ان لوازمات کی پابندی کئے بغیر سماجی بہبود کا پروگرام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا
فرانسیسی مفکر (مشل فوکو ) کا کہنا ہے کہ تاریخ کے بارے میں تصورات عموماً وہ بنتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں جو ہمیں اپنے لیے مناسب لگتے ہیں۔ایسے ہی تصورات کی روشنی میں تاریخ سازی کی جاتی ہے جسے اگلی نسل کو پڑھایا جاتا ہے اور بالآخر اس تیار کردہ تاریخ کو معروضی تاریخ سمجھا جانے لگتا ہے۔ جبکہ اصل معروضی تاریخ کو اگلی نسل یا تو جانتی ہی نہیں ہے یا جاننا چاہتی ہی نہیں ہے کیونکہ اصل معروضی تاریخ کی “دریافت” سے اگلی نسل کے نظریات، اعتقادات اور بنیادی خیالات متزلزل ہونے لگتے ہیں۔ اس پریشانی سے بچنے کے لیے نئی نسل ایک مقید ذہنیت کا شکار ہوجاتی ہے۔
آج جس تاریخ یا جن خیالات اور اعتقادات کا ذکر عمران خان کر رہے ہیں یہ ہم اپنے نصاب اور غیر نصابی بیانیوں میں پڑھتے اور سنتے آئے ہیں۔ مدینہ ریاست کا تصور، خلفاءِ راشدین کا تصور، اسلامی کشور کشائی کا تصور، یورپ کی تاریکی میں اسلامی نور کا پھیلنا، اسلام کا فلاحی ریاست کا تصور، اسلامی سائینس، محمد بن قاسم کا حملہ، محمود غزنوی یا شہاب الدین غوری کے حملے، غوری میزائیل، اسلامی بم، وغیرہ۔
فی الحال پاکستانی ریاست میں ان تصورات کا تاریخی تجزیہ نہیں ہوسکتا۔ ایک بات واضح ہے کہ یہ تمام تصورات اب ایک “معروضی تاریخ” کا درجہ اختیار کر کے ہیں۔ اگر آپ اسی بیانیے کو بیان کریں گے تو آپ مقبول ہوں گے۔ اور سیاسی رہنما یہی چاہتا ہے۔
لیاقت علی/ثقلین امام