اصغر علی بھٹی ۔مغربی افریقہ
بنوری ٹاون کے ترجمان رسالے ماہنامہ بینات کی محرم 1440 کی اشاعت میں ایڈیٹر کے قلم سے ایک مضمون ” عاطف میاں کی مخالفت کیوں ؟ وجوہ –اسباب–محرکات “ کے نام سے ص 3 تا 20 تک شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ایڈیٹر صاحب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کے شروع کے دنوں میں حکومت کی طرف سے 18 رکنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے قیام اور اس میں جناب عاطف میاں کی شمولیت کے اعلان کا ذکر کرنے کے بعد علماء کے احتجاج اور اس پر وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری صاحب کے بیان کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
آگے چل کر جناب جاوید چوہدری کے روزنامہ ایکسپریس میں ایک کالم بعنوان ” کیا قائد اعظم کو پتہ نہیں تھا ؟ “ اور اسی طرح سے روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب محمد بلال غوری کے 6 ستمبر 2018 کی اشاعت میں لکھے گئے ” شکریہ عمران خان“ کے نام سے کالم کا ذکر کرتے ہیں۔ایڈیٹر صاحب یہ سارا پس منظر اور ان دونوں مضامین کا خلاصہ درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں ” یہ دونوں صحافیوں کے چیدہ چیدہ 13 سوالات ،اعتراضات و اشکالات ہیں “اور پھر جواب دیتے ہوئےجماعت احمدیہ کے ساتھ ساتھ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب اور قائد اعظم کی ذات پر انتہائی نامناسب اور ٰغیر حقیقت پسندانہ الز مات و اتہامات کا طومار باندھ دیتے ہیں۔
جیسےلکھا کہ قائداعظم نامساعد حالات میں پھنسے ایک مجبور ولاچار شخص تھے۔۔۔وائسرائے کا قائد اعظم پر بہت دبائو تھا کہ سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ لگاو۔۔یہاں تک کہ وائسرائے نے دھمکی دی کہا اگر وزیر خارجہ نہ بنایا تو اختیارات کی منتقلی نہیں ہوگی یعنی آزادی پاکستان کا اعلان نہیں ہوگا۔۔۔قائد اعظم نے وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ بادل ناخواستہ قبول کیا۔۔۔” آپ اندازہ لگا لیں کہ ظفراللہ خان قائد اعظم کی کتنی بات مانتا تھا ۔بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک مولات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا ۔۔عرب ملکوں سے رشتہ اخوت مستحکم کرنے کی بجائے انہیں پاکستان سے بد ظن کرنے اور پاکستان سے دور کرنے کی پالیسی اختیار کی ۔۔اسلامی ہمسایہ برادر ملک افغانستان اور مصر سے جان بوجھ کر تعلقات کشیدہ کئے جن کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔۔۔مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بجائے دیدہ دانستہ طور پر خراب کیا گیا۔۔فلسطین کا مسئلہ،ظفر اللہ خان صاحب نے صاف انکار کردیا وغیرہ وغیرہ۔
کیا واقعی قائد اعظم ایک مجبور اور لاچار لیڈر تھے جسے وائسرائے ہندبلیک میل کرتا رہا ؟ اور وہ خاموشی سے بلیک میل ہوتے رہے ۔ اورمجبوراً ایک” نافرمان“ اور ”انگریز کے ایجنٹ“ کو وطن کا وزیر خارجہ قبول کر لیا۔بھلےچوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کا دفاع نہ کریں لیکن کم ازکم جس کو بانی پاکستان کہتے ہیں اس ایک سے تو وفا کریں اور ان مولوی صاحب کو حقائق سے روشناس کروائیں۔
خاکسار سر دست اپنی گزارشات کا دائرہ صرف سر کے خطاب والے حصے تک ہی محدود رکھے گا اسلئےآگے بڑھنے سےپہلےتحریک ترک موالات کا تعارف و پس منظر پیش کرتا ہےجس کے بعد بہت سے اعتراضات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب تحریک ترک موالات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تحریک خلافت میں متوقع کامیابی کے بعد مسٹر گاندھی نے دوسرا قدم اٹھا یا اور 1920 میں تحریک ترک مولات کا اعلان کر دیا ۔ 28 مئی 1920 کو بمبئی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا جس میں عدم تعاون کے اصول کو تسلیم کیا گیا۔2 جون 1920 کو الہٰ آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ہندو اور مسلمان راہنمائوں نے شرکت کی۔اس میں تحریک ترک موالات کی قرار داد اصولاً پاس کر دی گئی۔ اور اس طریقہ کار کو مسٹر گاندھی کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جو مندرجہ یل اشخاص پر مشتمل تھی 1) مسٹر گاندھی 2) مولانا محمد علی جوہر 3) مولانا شوکت علی 4) مسٹر کھتری 5) مولانا حسرت موہانی 6 ) ڈاکٹر کچلو ( محمد علی زندگی اور کارنامے مدراس 1921 ص55) ( تحریک آزادی ہند اور ا لسواد الاعظم مصنفہ پروفیسر محمد مسعود احمد ص 116 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )۔
تو سب سے پہلی بات تو یہ سامنے آئی کہ تحر یک ترک مولات 1920 میں شروع ہوئی جس میں بقول مولوی صاحب ”بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک موالات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا“۔
اصولی طور پر پہلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ قائد اعظم نے یہ اپیل کب کی؟ کس موقعہ پر کی ؟ کہاں سے کی؟کس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی ؟ اور کس اخبار میں شائع ہوئی ؟ کس مورخ نے اسے اپنی تاریخ میں جگہ دی؟ وغیرہ وغیرہ مگر آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ تاریخ کے اس سادہ سے سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ یہ مولوی صاحب کا تاریخ پاکستان سے کورا پن ہے یا جھوٹ بولنے کا خمار ہے ورنہ ایسی کوئی بات اشارہ کنایہ میں بھی کہیں نظر نہیں آتی۔
پھر دوسری بات جو اس سے بھی ا ہم ہے کہ ترک موالات کے لئے اپیل تو درکنار کیا خود قائد اعظم ،تحریک ترک موالات میں شریک ہوئے اور اس تحریک کو جائز اعلان کیا ؟ تاریخ کا جواب پھرنہیں میں ہے۔انہوں اس تحریک کو بالکل بھی جائز نہیں سمجھا۔ گو کہ کچھ مشہورمسلمان قائدین اور خاص طور پر دیوبندی علماء گاندھی جی کی چلائی ہوئی اس تحریک کا حصہ بنے مگر قائد اعظم ، اور مسلمانوں کا سواد اعظم اسے ایک ہندووانہ سازش سمجھتاتھا اور وہ اس کا حصہ نہیں بنے بریلوی عالم دین جناب احمد رضا خان نے کھل کر اس مخالفت کی او ر فتاویٰ بھی دئیے۔
چنانچہ پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب انہی دنوں کلکتہ میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” 8 ستمبر 1920 کو مسلم لیگ کا کلکتہ میں اجلاس ہوا۔لیکن جب اجلاس کے سامنے ترک موالات کی حمائت میں قرار داد پیش کی گئی تو قائد اعظم کرسی صدارت سے ہٹ گئے اور حکیم اجمل خان کی صدارت میں یہ قرار داد منظور ہوئی۔“ (تحریک آزادی ہند اور ا لسواد الاعظم مصنفہ پروفیسر محمد مسعود احمد ص 116 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )
بریلوی مفتی اعظم شاہ محمد مظہر صاحب نے گائو کشی کی موافقت میں اور تحریک ترک موالات و تحریک ہجرت کے خلاف فتوے دئے جو فتاویٰ مظہریہ مطبوعہ کراچی 1970 میں ص 221 تا 229 پر محفوظ ہیں۔ اسی طرح سے ڈاکٹر سر علامہ اقبال بھی تحریک ترک موالات کے مخالف تھے ۔ تحریک کے زمانے میں آپ انجمن حمائت اسلام لاہور کے جنرل سیکرٹری تھے۔ جنرل کونسل نے اپنے اجلاس میں ترک مولات کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ 21 نومبر1920 کو انجمن حمائت اسلام کے اجلاس میں علی برادران اور مولانا آزادنے ترک موالات کی حمائت میں تقاریر کیں جبکہ سر شیخ عبد القادر نے اس کے خلاف تقریر کی۔ قائد اعظم پہلے ہی اس تحریک سے الگ ہو چکے تھے۔
دیوبندی علماء کی اسی روش یعنی ایک مشرک گاندھی کی پیروی پر مولانا احمد رضا خان نے مشہورطنزیہ ریمارکس دیا تھا کہ ” یہ کونسا دین ہے نصاریٰ کی ادھوری سے اجتناب اور مشرکین کی پوری میں غرقاب “ ( المحجۃ المومنۃ فی آیۃ الممتحنۃ 1920 مطبوعہ حسنی بریلی بار دوئم ص 14 ) اب جو شخص اس تحریک کو مسلمانوں کے خلاف گھنائونی سازش سمجھتا ہو وہ اس کے لئے تعاون کی اپیلیں کیسے کر سکتا ہے؟
اس سے بھی زیادہ اہم ایک اور سوال ہے،کہ کیا اس وقت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے پاس ” سر “ کا خطاب موجود تھا بھی جسے انہوں نے واپس کرنے سے انکارکر دیا تھا؟۔تو تاریخ یہ ہےکہ چوہدری صاحب کے پاس تو اس وقت یہ خطاب تھا ہی نہیں۔ بلکہ آپ کو تویہ خطاب تحریک ترک مولات سے 17 سال بعد یعنی 1937 میں ملا جب آپ نے دو سال تک وزیر ریلوے کے طور پر بہترین کام کرتے ہوئے اپنا کام ختم کیا۔اس لئے سیانے صحیح کہتے کہ کامیاب جھوٹ بولنے کے لئے عقل ہو نہ ہو یادداشت اچھی ہونا ضروری ہے۔
پھر اس سے بھی زیادہ ایک اور اہم بات جو مضمون نگار نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ قائد اعظم کی ترک موالات کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے سب نے اپنے اعزازات واپس کر دئیے ”بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک مولات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا“ اب یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے،انتہائی بڑا۔ مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا کہ کس کس نے اپنے اعزاز اور خطاب واپس کئے ؟ محوحیرت ہوں کہ ایک مذہبی عالم دین کسی سے نفرت میں اتنا بھی آگے جا سکتا ہے کہ اپنے ایمان ہی کو آگ لگا دے۔
دیکھیں تاریخ یہ بتاتی ہےکہ برٹش انڈیا میں بیسیوں قسم کے اعزازات اور خطابات تھےجو سینکڑوں نہیں ہزاروں مسلمانوں کو دئیے گئے ۔خلعتیں دی گئیں۔جاگیریں دی گئیں ۔ مالی وظیفے دئیے گئے۔انگریزی عدالت میں کرسی کےاعزازسے نوازا گیا۔شمس العلماء کے خطابات دئیے گئے۔نمبردار ،ٹمن دار، جاگیردار، نواب ، سر، عالی جاہ ۔کے اعزازات سے لادا گیا۔گھوڑی پال مربعے الاٹ کئے گئے۔ خان بہادر، احتشام الدولہ اور فیروز جنگ کے خطابات سے نوازا گیا۔ جی– سی– آئی – ای اور جی – سی – ایس – آئی اور کراون آف انڈیا جیسے تمغہ جات سے نوازا گیا۔ اس میں مولوی، عالم دین ،دانشور ، ادیب ، شاعر، فوجی، نواب،جاگیردار یعنی سب کے حصے میں حصہ بقدر جثہ انعامات و اعزازآئے۔
یہ سب اعزازات آج بھی ان مسلمان اشرافیہ کے پاس ہیں ان کی اولادوں کے پاس ہیں ۔ انگریز کی دی ہوئی کون سی جاگیر کسی نے واپس کی؟۔ شمس العلماء کا خطاب کس نے واپس کیا ؟ پیر مہر علی شاہ صاحب نے نوابی کا خطاب واپس کیا ؟ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب جو مالی وظیفہ وصول کرتے رہے کیا واپس کیا ؟ مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب نے شمس العلماء کا خطاب واپس کیا ؟نہیں بالکل بھی نہیں۔بلکہ ایک دفعہ مکان کو آگ لگ گئی تو سر ٹیفیکیٹ بھی جل گئے دوبارہ دربار میں حاضر ہو گئے اور دوباہ سے یہ سرٹیفیکیٹ جاری کیےگیے۔
انجمن حمائت اسلام کے صدر سر شیخ عبد القادر صاحب نے واپس کیا ؟مولوی محمد حسین بٹالوی کے بچوں نے فیصل آباد کے پاس ملنے والے دو مربعہ سرکاری زمین واپس کی؟مولوی عبدالرحیم عظیم آبادی الدر المنثور میں وہابی مولویوں کو ملنے والے اعزازات کی ایک لسٹ یوں پیش کرتےہیں نمبر1)شمس العلماء جناب حضرت مولانا محمد سعید قدس سرہ ساکن محلہ مغلپورہ شہر پٹنہ نمبر2)شمس العلماء جناب مولانا محمد حسنؒ ساکن محلہ صادق پور شہر پٹنہ نمبر3شمس العلماء برادرم عزیز مولوی عبدالروف مرحوم ومغفور ساکن محلہ صادقپور شہر پٹنہ نمبر4)شمس العلماء امجد علی صاحب ایم۔اے پروفیسر سنٹرل کالج الہ آباد ساکن صادقپور شہر نمبر5)شمس العلماء جناب حضرت مولانا نذیر حسین مذطلہ محدث دہلوی ساکن سورجگڈھ ضلع مونگ نمبر6)خان بہادر جناب قاضیمحمد اجمل مرحوم ساکن قصبہ باڑہ ضلع پٹنہ نمبر7)خان بہادر قاضی جناب مولوی فرزند احمد صاحب ساکن گیا نمبر8)شمس العلماء جناب مولوی محمد یوسف صاحب ۔ ان میں سے کسی نے بھی واپس کیا ؟ نہیں سوچا تک نہیں۔ ایک لمبی لسٹ ہے سب کےبیان کایہ مختصر مضمون متحمل ہی نہیں ہو سکتا مگر مختصر یہ کہ ان سینکڑوں علماء میں سے کسی نے بھی کوئی اعزاز کوئی اکرام واپس نہیں کیا۔
پھر اگر نوابوں اور رئیسوں کی طرف چلیں ۔ ریاست ٹونک،ریاست حیدر آباد دکن،ریاست رامپور،ریاست بہاولپور،ریاست جاورہ، والیان جون پور،والی قلات، والی چترال، والی ریاست امب ہزارہ،رئیس ہوتی ضلع مردان،رئیس خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ،صوبہ سر حد کے پہلے وزیر اعلیٰ صاحبزادہ عبد القیوم خان اور ان کا خاندان، حاجی نواب فتح علی خان قزل باش رئیس اعظم پنجاب کا خاندان،ملک غلام محمد رئیس پنڈی گھیپ ضلع اٹک کا خاندان،روسائے عیسیٰ خیل، رئیس اعظم ملتان خان بہادر مخدوم شیخ حسن بخش صاحب اور ان کا خاندان،ڈیرہ غازی خان کے کھوسے رئیس،شاہ پور کے ٹوانے، سرگودھا کا نون خاندان، نواب ممڈوٹ کا خاندان، قزلباش خاندان، بخاری فقیر، کالاباغ کے نواب،گگھڑ راجے، نمک سار کے جنجوعے، پنجاب کے کلاں شیخ ،لغاری تمندار، اور بلوچستان کے سرداران سب مسلما ن رئوساء کے انگریزی دربار سے ملنے والے اعزازا کی لسٹ بتانے کے لئے ایک کتاب کی ضخامت چاہئے۔ کسی نے واپس کئے ؟ نہیں آج بھی پاکستان کی سیاست کے یہی محور ہیں اور یہی اعزازات ان کی میراث و معراج ہیں۔پھر مولوی صاحب آپ نے کس بھرتے پر اتنا بڑا بول بول دیا ۔ آپ کی جماعت احمدیہ سے مخالفت کی سمجھ تو آتی ہے مگر تاریخ پر کالا کوڑا پھینکنے کا تُک سمجھ نہیں آیا؟کیا اس طرح سے تاریخ بد ل جائے گی یا احمدیت فتح ہو جائے گی؟
پھروہ کہتے ہیں ناں کہ تعصب اندھا ہوتا ہے اور اندھا کر دیتا ہے۔مولوی صاحب کو چونکہ دشمنی جماعت احمدیہ سے ہے اس لئے تاریخ کے ہر کمزور لمحے کو وہ جماعت احمدیہ سے منسوب کرنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں جھوٹ ہی گھڑنا پڑے ۔اب دیکھیں مولوی صاحب جس واقعہ کو قائد اعظم اور چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے درمیان نافرمانی پر فٹ کرنا چاہ رہے ہیں دراصل یہ واقعہ ڈاکٹر علامہ اقبال اور مولانا عبد المجید سالک صاحب کے درمیان پیش آیا تھا ۔ وہ بھی ان دنوں جب آپ عین تحریک تر ک موالات کے درمیا ن حکومت سے سر کا خطا ب وصول کر رہے تھے اور نہ صرف خود وصول کیا بلکہ سفارش کراکے اپنے استاد جناب میرحسن صاحب کو بھی شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔مولانا رئیس احمد جعفری صاحب علامہ کی شان’’محکومیت‘‘کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’اس دور میں اس طوفان خیز اور ہنگامہ خیز دور میں اقبال کا کیا حال تھا؟ وہ کس طرف تھے؟آزادی کے شیدائیوں اور ملت کے مجاہدوں کے ساتھ یا قوم کے دشمنوں یا ملک کے غداروں کے ساتھ ۔واقعات وحقائق بڑے بے مروت اور غیر جانبدار ہوتے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے۔ سچی اور کھری بات کہتے ہیں۔حقائق کی زبان سے واقعات کا بیان یہ ہے کہ اقبال نہ صرف تحریک خلافت کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اس اصول سےاختلاف رکھتے تھے اور اسی لئے اس سے ہر طرح سے الگ اور غیر متعلق تھے جس طرح ایک مخالف ہوسکتا ہے۔یہی نہیں عین اس زمانہ میں جب لوگ ملازمتوں پر لات ماررہے تھے سرکاری سکولوںکالجوں یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کررہے تھے اقبال کو سر کا خطاب دیا گیا اور انہوں نے اس کو قبول بھی کرلیا جس پر کسی دل جلے نے یوں فقرہ چست کیا:سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال(اقبال اور سیاست ملی صفحہ273)۔
اوپر درج صرف مصرہ نہیں ہے بلکہ مولاناعبدالمجید سالک کی ’’زمیندار‘‘اخبار میں شائع شدہ نظم کا ایک مصرعہ ہے جو مولانا سالک صاحب نے علامہ اقبال کے تحریک ترک موالات کے عین درمیان انگریز سرکار سےسر کا خطاب وسول کرنے پر طنزیہ لکھے تھے
پہلے تو سر ملت بیضا کے تھے وہ تاج
اب اور سنو تاج کے سر ہوگئے اقبال
کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پہ کوئی گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال
یاد رہے انہیں دنوں ایک ہندو ڈاکٹر ٹیگور کو بھی خطاب ملاتھا مگر انہوں نے واپس کردیا (زندہ رود جلد نمبر2صفحہ270 )اقبال نے نہ صرف خود وصول کیابلکہ اپنے استاد مولانا میرحسن کی سفارش کرکے انہیں بھی شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔(زندہ رود صفحہ257) بلکہ اعتراض ہونے پر تحریک خلافت اور ترک موالات والوں کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ ’’خلافت کمیٹیوں کے بعض ممبران بظاہر جوشیلے مسلمان لیکن درباطن اخوان الشیاطین ہیں‘‘۔(مظلوم اقبال مطبوعہ1985ء شیخ اعجاز احمدصفحہ314).
بنوری ٹائون کے ترجمان کا جماعت احمدیہ جیسے عالمگیر اسلامی جماعت پر۔حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب جیسے عرب دنیا کے وکیل پر اور حضرت قائد اعظم جیسے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے محسن پر اتنے ظالمانہ اعتراضات کے جواب میں دارلعلوم دیوبند کے سابق مہتم اور مفتی جناب فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی صاحب کے وہ ماتمی الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے ” محسوس یہی ہوتا ہےکہ اخلاص اور للہیت جو دارلعلوم کی اصل روح تھی وہ بالکل نکل چکی ہے اور ایک خوبصورت ڈھانچہ ہے جو دیکھنے میں بڑا اچھا نظر آتا ہے مگر بے جان ہے ۔ کہنے کو اب بھی گوشے گوشے سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔لباس تقویٰ کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر تقویٰ نہ لباس میں ہے نہ ظاہری صورت میں“( حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب مصنفہ مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی ص 146و147) ۔
♦