بیرسٹر حمید باشانی
صدر ٹرمپ کے کشمیرپر ثالثی کےبیان پر ایک ہنگامہ سا برپا پے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ یہ ہنگامہ خود امریکہ میں بھی ہوا ہے۔ البتہ اس ہنگامے کا زیادہ شور بھارت میں سنائی دے رہا ہے۔ یہ شور بیک وقت پارلیمنٹ اور میڈیا میں اٹھا ہے۔ مگر پارلیمنٹ میں اس کی بازگزشت کچھ زیادہ ہی سنائی دی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں یہ ہنگامہ زوروں پر رہا۔
وزیر خارجہ جے شنکر کی وضاحت اور تردید کے باوجود حزب مخالف کا احتجاج اور ہنگامہ جاری رہا۔ اور اراکین نرنیدر مودی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ان کی طرف سے ذاتی طور پر وضاحت و تردید کا مطالبہ کرتے رہے۔ اراکین نے ٹرمپ کے بیان کو کامیابی سے نریندرہ مودی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے اسے حلف کی خلاف ورزی کہا، اور کسی نے ملکی سالمیت اورسلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ پارلیمنٹ میں صدر ٹرمپ کی گفتگو کے ٹرانسکرپٹ تقسیم ہوتے رہے، اور مودی کو نا قابل اعتبار ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔
دوسری طرف پارلیمنٹ سے باہر بھارتی میڈیا نے بھی اچھا خاصا طوفان کھڑا کیا۔ عام طور پر مودی کی پالیسیوں سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی اس مسئلے پر سخت زبان استعمال کرتے رہے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اس کی تردید جاری ہو چکی ہے۔ اس طوفانی رد عمل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ غالبا نریندرہ مودی کو اس کی با ضابطہ تردید کرنی پڑے گی۔ اور مستقبل قریب میں ماضی کی طرح مسئلہ کشمیر پر ان کا موقف مزید سخت ہو جائے گا۔ اس طرح جلدی جلدی اس مسئلے پر کسی قسم کی پیش رفت کے امکانات اگر موجود تھے تو ان کو شدید د ھچکا لگا ہے۔
دوسری طرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی اگرچہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، مگرہنگامہ ضرور ہواہے۔ یہاں پر رد عمل زیادہ تر زرائع ابلاغ میں ہوا ہے۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کی بات ہے، تواس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان انڈیا تعلقات کے باب میں اگر امریکی سفارت کاری کی تاریخ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ پیشکش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ چالیس اور پچاس کی دھائی میں چونکہ یہ مسئلہ با ضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے ایجنڈےے پر رہا ہے ۔
چنانچہ اس وقت اس طرح کی جو بھی سفارت کاری ہوئی ہے وہ اقوام متحدہ اقوم متحدہ کے ذریعے ہی ہوتی رہی تھی۔ اقوام متحدہ میں میں امریکی ، کنیڈیِن اور آسٹرلین نمائندوں کے ذریعے یہ کوشش ہوتی رہی ہے۔ 1965 میں روس کی ثالثی سے پاکستان اور امریکہ کے رہنماوں کے درمیان ہر اعلی سطح کی ملاقات کے دوران کشمیر کسی نہ کسی طرح درمیان میں آتا رہا۔ خواہ یہ اس مسئلے پر پاکستان کی طرف سے حمایت کی دراخواست ہو، ثالثی کی استدعا ہو یا پھر امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش ہو۔اس لیے ثالثی کی موجودہ پیشکش میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
البتہ جس حوالے سے اورجس انداز میں انہوں نے یہ بات کی وہ باعث ہنگامہ ٹھہری ہے۔ امریکہ کے اندر بعض سیاست دانوں اور سفارت کاروں سمیت میڈیا کے بعض حصوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی صدر طالبان کے ساتھ بات چیت کو کامیاب بنانے کی کوئی بھی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ وہ اپنے اپنے نئے شراکت دار بھارت کی ناراضگی کی قیمت پر بھی پاکستان کو خوش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
میگزین لکھتا ہے کہ پیر کے دن ایک بار پھر صدر ٹرمپ کی اپنی جہالت کی نمائش اور بڑائی ظاہر کرنے کا رویہ عروج پر تھا۔ اس نے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران افغانستان پر مدد لینے کے چکر میں کشمیر جیسے پرانے تنازعے میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور اس عمل میں واشنگٹن کے نئے دریافت شدہ شراکت دار بھارت کو ناراض کر دیا۔ طالبان کے ساتھ جاری امن مزاکرات کو کامیاب بنانے کی خاطر پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس نے اربوں ڈالزر کی امداد کی پیش کش کی۔ پھر اس نے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی۔
اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرہ مودی پہلے ہی اس سے ثالثی کی درخواست کر چکے ہیں۔۔ بھارتی حکومت نے اس دعوے کی فی لفور تردید کردی ، جو ان کی اس مسئلے پر کئی عشروں کے طے شدہ پالیسی سے متصادم ہے۔ بھارت نے واضح کیا کہ اس کے وزیر اعظم نے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی ہے۔ بھارت کی یہ مستقل پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ےتمام مسائل کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے طے کیا جائے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران امریکی اہل کارپاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کئی مبہم کوششیں کر چکے ہیں۔ امریکی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تصادم افغانستان میں قیام امن کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ اور ان کے درمیان تصادم یہ جنوبی ایشیا میں نیو کلیئر جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کیا جانا چاہیے۔
عالمی سفارت کار اور مقامی ماہرین ایک مدت سے یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی افغانستان میں امن کے قیام میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے طالبان اور دوسرے لڑاکا گروہوں کی حمایت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ کشیدگی مسئلہ کشمیر حل کرنے سے ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن اصولی طوربھارت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے خلاف رہا ہے، اور پاکستان کا یہ ایجنڈا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ ٹرمپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی۔
ٹرمپ کی بات پر رد عمل دیتے ہوئے ایک سابق امریکی سفارت کار ایلیسا آئیر نے کہا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی طرف سے ایک گھنٹے کے اندر اندر امریکی صدر کی بات کی تردید آنا بڑی شرمندگی کی بات ہے۔ ایوان نمائندگان کے رکن براڈ شرمین نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ٹرمپ کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لیے اسے ذاتی طور بھارتی سفیر سے معذرت کرنی پڑی۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انڈیا پاکستان کے درمیاں ثالثی کی بات کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ ایک ملک ہمیشہ اور ہر جگہ ثالثی کے لیے کہتا ہے اور دوسرا اس کو رد کرتا ہے۔ ٹرمپ نے کچھ عرصہ پہلے ٹویٹر پر لکھا تھا کہ پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مگر پیر کے روز اس کا لہجہ مختلف تھا۔ اس روز اس نے اعلان کیا کہ پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کی کامیابی اس لیےبہترین راستہ ہے کہ وہ دس ملین لوگوں کو مارنا نہیں چاہتا۔ یہ ایک طرح کی امریکہ کی طرف سے افغانستان پر نیو کلئیر حملے کی دھمکی ہے، جس نے امریکی محکمہ دفاع میں کئی ایک کو چکرا کر رکھ دیا ہوگا۔
میڈیا میں مخالفانہ بحث اور بھارت کی تردید کے باوجود صدر ٹرمپ اور ان کے رفقاء ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہیں۔ صدر ٹر مپ کے مشیر برائے معاشی امور لیری کڈلو نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی نے کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا۔ صدر ٹر٘مپ نہ تو بلاوجہ کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتے ہیں۔ انہوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ بھارت مسئلہ کشمیر پر ثالثی کو لیکر کچھ ضرورت سے زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ حالاں کہ باقی کئی معاملات پر ماضی میں دونوں ممالک ثالث سے رجوع اور استفادہ کر چکے ہیں۔
سنہ 1965کی جنگ میں سوویت یونین دونوں ملکوں کی فوجوں کے انخلا کے سلسلے میں ثالث کا کردار ادا چکا ہے، جو معاہدہ تاشقند پر منتج ہوا تھا۔ رن کچھ ایکارڈ میں برطانوی وزیر اعظم ہیرولڈ ولسن نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ انڈس واٹر معا ہدہ بھی عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے ہی ممکن ہواتھا۔
ثالثی کی بات متنازعہ ہونے کے باوجود کشمیریوں کے نقطہ نظر سے یہ بڑی بات ہے کہ وائٹ ہاوس میں بات ہوئی ہے۔ کشمیر پر ایک صحافی کی طرف سے اٹھایا گیا سوال اور اس پر پانچ چھ منٹ کی گفتگو بذات خود اچھی پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔
♦