بیرسٹر حمید باشانی
کچھ لوگ امیت شاہ کے دورہ کشمیر سے کافی امید یں باندھ چکے ہیں۔ مگر یہ امیدیں اور توقعات زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتیں۔ جس واضح موقف کا واضح اظہار بھارت کی حکمران جماعت کے بیشتررہنما کر چکے ہیں، ان کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے کوئی مشترکہ قدرنظر نہیں آتی۔ نیریندرا مودی نے انتخابی مہم کے دوران اور بعد ازاں جو موقف اختیار کیا ہے، اس میں مذاکرات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک مایوس کن بات ہے۔ بر صغیر جنوبی ایشیا میں امن کا راستہ بڑا دشوا گزار ہے۔ مگر امن محض ایک آپشن نہیں ہے، جس کا انتخاب اختیاری ہو۔ یہ واحد راستہ ہے جو برصغیر کے کروڑوں مفلوک الحال لوگوں کو امید کی کرن دیکھا سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے کچھ ہندو قوم پرست اتحادیوں کا خیال ہے کہ تاریخی اعتبار سے ہندوستان کی حکومتوں اور لیڈر شپ نے مئسلہ کشمیر کو الجھایا ہے۔ دائیں بازوں کے ہندو قوم پرست دانشوروں کا خیال ہے کہ پنڈت نہرو نے کشمیر پر کئی سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ ان میں ان کی ایک سنگین غلطی مئسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانا تھا۔ ان کے خیال میں اس اقدام سے ہندوستان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ اس غلطی سے عالمی طاقتوں کو کشمیر کے اندر مداخلت کا موقع مل گیا۔ جس سے کشمیر عالمی سازشوں کا اکھاڑا بن گیا۔
ان کے خیال میں نہرو کی دوسری بڑی اور سنگین غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ریاست جموں کشمیر کو دیگر ریاستوں کی طرح سردار پٹیل پر چھوڑنے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ایک کشمیری پنڈت کا پس منظر رکھنے کی وجہ سے جواہر لال نہرو کی کشمیر کے ساتھ جو جذباتی وابستگی تھی وہ ان کے پاوں کی زنجیر بن گئی۔ ان کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ شیخ عبداللہ کے ساتھ ان کی گہری دوستی اورکسی حد تک نظریاتی ہم آہنگی تھی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے ایک سیدھے سادے راستے کے بجائے ایک طویل اور پیچیدہ راستہ اختیار کیا۔
ان کے خیال میں اس مسئلے کو اتنا الجھانے کے بجائے اگرسردار پٹیل کے حوالے کر دیا جاتا تو وہ حیدرآباد اور جونا گڑھ وغیرہ کی طرح طاقت کے زور پرکشمیر لے سکتے تھے۔ یہ موقف رکھنے والوں میں ایک مضبوط لابی وہ ہے جو روایتی طور پر نہرو کے سوشلسٹ نظریات اور گاندھی کی عدم تشدد اور امن پسندی کی پالیسی کے خلاف رہی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ ان دو شخصیات کی تاریخِی حیثیت اور قد کاٹھ کی وجہ سے ان پر براہ راست تنقید کے بجائے کشمیر جیسے الجھے ہوئے مسائل کو سامے رکھ کر بات کرتے ہیں ، تاکہ ان مسائل کی آڑ میں ان شخصیات کی خامیوں اور کمذوریوں پر بات کی جاسکے۔
نریندرا مودی ان لوگوں کے خیالات سے متفق ہیں۔ وہ ان سے ملتے جلتے خیالات کا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں۔ وہ کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اس طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا، جس طریقے سے ماضی کے بھارتی لیڈر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ نریندرا مودی کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ اس مسئلے کو ہی جڑسےختم کر دیا جائے۔ وہ سرکاری اور نجی محفلوں میں یہ مِسلہ ختم کرنے کا روڈ میپ پیش کرتے رہے ہیں۔
اس روڈ میپ میں تین اہم اقدامات شامل ہیں۔ پہلا قدم ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ اس لیے آج تک زندہ ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت حا صل ہے۔ یہ خصوصی حیثیت ختم کرنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک ختم ہوجاتا ہے؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے آئین کےدفعہ تین سو ستر میں تبدیلی یا اس کی منسوخی ضروری ہے۔
دوسرا اہم قدم پینتس اے کو ختم کرنا ہے۔ یہ دفعہ ختم کرنے سے بطور ” سٹیٹ سیبجیکٹ ” کشمیریوں کی خصوصی مراعات ختم ہو جاتی ہیں، اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے لوگوں کو کشمیر میں جائدادیں خریدنے اور کاروبار وغیرہ کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کے خیال میں ” سٹیٹ سیبجکٹ ” کی رکاوٹ ہٹانے کے بعد باقی ہندووستان سے بڑے پیمانے پر لوگ آکر ریاست جموں کشمیر میں آباد ہو جائیں گے ، جس سے یہاں کی “ڈیموگرافی ” بدل جائے گی۔ اور ڈیموگرافی کے بدلنے سے کشمیر کے اندر موجود آزادی یا علیحدگی کی تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی۔
تیسرا قدم ریاست کی قانون سازاسمبلی کی نشستوں میں اس طرح رد وبدل اور اضافہ کرنا ہے، جس سے ریاست جموں کشمیر کی سیاست میں وادی کشمیر کی غالب حثیت اور اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس سے ریاست کی سیاست میں جموں اور لداخ کا کردار بڑھ جائے گا ، جہاں اس طرح ہندوستان مخالف جذبات نہیں ہیں، جو وادی میں پائے جاتے ہیں۔ ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ان تینوں اقدامات کے لیَے پاکستان یا حریت قیادت سے مذاکرات یا مشورےکی ضرورت نہیں ہے۔ اور قانون ساز اسمبلی کی عدم موجودگی اورگورنر راج کی وجہ سے کچھ اقدامات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی کیے جا سکتے ہیں، جس کے لیے ریاست قانون ساز اسمبلی کی منظوری ضروری نہیں ہو گی۔ اور اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو اس کا بھی حسب روایت جوڑ توڑ یا سازش کے زریعے بندو بست کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کے حامی طاقت ور ہندو نیشنلسٹ حلقوں میں اس روڈ میپ کی کامیابی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ یہ خوش فہمی حکومت کو ریاست کے اندر علیحدگی پسند ، ناراض اور بے چین حلقوں کے ساتھ مذکرات سے روکتی ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اگر گاہے مذاکرات کی بات بھی ہو تو یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ یہ مذاکرات ہندوستانی آئین کے دائرے کے اندر ہوں گے۔ اور کشمیریوں کی طرف سے صرف کسی ایسے مطالبے پر ہی غور کیا جا سکتا ہے جسے ہندوستانی آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر پورا کرنا ممکن ہو۔
جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کی اندرونی خودمختاری ، مرکز اور ریاست کے درمیان اختیارت اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے مسائل پر ہی پر بات ہو سکتی ہے۔ اس بات کا لازمی مطلب یہ ہے کہ کشمیری رہنما پہلے یہ تسلیم کریں کہ ریاست جموں کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ اور وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دوں کی روشنی میں حل کرنے کی بات نہ کریں۔
دوسری طرف کشمیریوں کا شروع سے یہ موقف رہا کہ وہ بھارتی آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی پیشگی شرط یہ ہے کہ ہندوستان سے مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرے۔ کشمیریوں کی طرف سے دوسری بڑی شرط یہ رہی ہے کہ کشمیر سے متعلق تمام فوجی قوانین کو معطل کیا جائے۔ ان تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے، جو تحریک کے دوران گرفتار ہوئے ہیں۔ سب سے اہم اور بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کشمیری نمائدوں کو ایک بنیادی فریق کی حیثیت میں شامل کرے۔
جیسا کہ ظاہر ہے دونوں فریقوں کے درمیان بنیادی باتوں پر شدید اختلاف رائے ہے، جس کی موجودگی میں مذاکرات کا آغاز ہی ایک مسئلہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے اٹل بہاری واچپائی نے اس معاملے میں ہندوستان کے عام موقف سے ہٹ کر ایک غیر روایتی موقف اختیارکیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر کرنے کے بجائے انسانیت کے دائرے کے اندر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جنرل مشرف نے بھی پاکستان کی روایتی پالیسی سے ذرا ہٹ کر بات کی تھی۔ انہوں نے کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔
یہ فارمولہ پاکستان کی روایتی پالیسی سے بہت مختلف تھا۔ اس فارمولے کے تحت کشمیر سے فوجوں کے انخلا اور کشمیر کے مختلف حصون میں مشترکہ انتطامیہ کا قیام جیسی نئی تجاویز شامل تھیں۔ دونوں طرف سے اس خوشگوار تبدیلی کی وجہ سے اس وقت کشمیری رہنماوں اور بھارتی حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ واچپائی کے بعد من موہن سنگھ کے دورمیں بھی یہ مذاکرات جاری رہے، جو بعد میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس پس نظر اور موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں امیت شاہ کے دورے سے فوری نتائج کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
♦