ظفر آغا
پچھلے چند دنوں کے اندر دہلی اور مغربی اتر پردیش سے فرقہ وارانہ واقعات کی تشویشناک خبریں آ رہی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتہ پرانی دہلی یعنی مغل دور کی دہلی کے علاقہ سے فرقہ وارانہ جھگڑے کی اطلاع آئی۔ ایک چھوٹا سا اسکوٹر پارکنگ کا معاملہ منٹوں میں فساد میں تبدیل ہو گیا۔ ایک مسلم نوجوان کو چند ہندو نوجوانوں نے اسکوٹر پارک کرنے سے روکا۔ آپس میں گرما گرمی ہوئی، مسلم لڑکے کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ دوسری صبح مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالا۔ دوسری جانب سے ہندو مجمع اکٹھا ہوا، پتھراؤ بھی ہوا۔ ایک گلی میں دیوار میں نصب مندر تھا اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ مورتیاں زمین پر گر پڑیں۔ بس بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ٹی وی پر شور مچ گیا کہ مسلمانوں نے مندر توڑا اور مورتیوں کی توہین کی۔ بس پورے ملک میں یہ پیغام پہنچ گیا کہ دیکھیے مسلمان تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔
ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ دہلی کے پڑوس میرٹھ شہر سے خبر آئی کہ وہاں حالات کشیدہ ہیں۔ میرٹھ میں جماعت اسلامی کے چند ہمدردوں کی جانب سے جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی موب لنچنگ کے خلاف احتجاج کی کال تھی۔ اس کال پر مسلمانوں کا کثیر مجمع اکٹھا ہوا۔ اس کے بعد شہر میں ہندو–مسلم فضا بگڑنی شروع ہوئی۔ اس کالم کو لکھنے سے ذرا قبل میرے پاس میرٹھ سے فون آیا کہ شہر میں کرفیو جیسے حالات ہیں۔ پولس نے مسلم بستیوں میں قہر ڈھا رکھا ہے۔ چپہ چپہ پر پولس کا پہرہ ہے۔ مسلمان حراساں ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔ ایسی خبریں یو پی کے دوسرے اضلاع سے بھی موصول ہو رہی ہیں جو تشویشناک ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں مسلمان کرے تو کیا کرے!۔
جھارکھنڈ جیسے موب لنچنگ کے واقعات ہوں اور وہ خاموش بیٹھا رہے یا پھر میرٹھ میں جیسے وہ سڑکوں پر نکل آیا ویسے ہی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرے۔ یا پھر دہلی میں جیسی زیادتی ہوئی ویسی زیادتی پر مشتعل ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی گروہ ظلم و ناانصافی کے خلاف ہمیشہ خاموش تو نہیں رہ سکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ اشتعال تو پیدا ہوگا۔ لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ کیا جوش میں سڑکوں پر نکلنے اور نعرہ تکبیر کے ساتھ بڑے بڑے جلسے جلوس نکالنے سے قوم کا کوئی بھلا ہو رہا ہے۔
دہلی اور میرٹھ دونوں جگہ ہونے والے واقعات سے یہ صاف واضح ہے کہ ان جگہوں پر جو کچھ ہوا اس میں خسارے میں مسلمان ہی رہا۔ دہلی میں ٹی وی پر ٹوٹے ہوئے مندر کو دِکھا کر سارے ملک میں یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ مسلمان ‘ہندو دھرم وِرودھی’ ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے اس علاقے سے درجنوں مسلم نوجوانوں کو پولس اٹھا لے گئی اور اب ان کے ماں–باپ پولس تھانے اور کچہری کے چکر لگا رہے ہیں۔ یہی حال میرٹھ کا ہے۔ ادھر وہ مسلم قائدین جنھوں نے جوش و ولولہ پیدا کیا تھا ان کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے۔
چونکہ راقم الحروف بابری مسجد تحفظ تحریک سے ہندو–مسلم فسادات اور ان کے سیاسی اثرات کو رپورٹ کرتا رہا ہے اس لیے مجھ کو یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ میرٹھ، دہلی یا دیگر جگہوں پر جو واقعات پیش آئے ہیں ان کے پیچھے باقاعدہ ایک منظم طریقہ کار اور حکمت عملی شامل ہے۔ دیکھیے بابری مسجد اور رام مندر تنازع کے دوران ہوا کیا تھا۔
پہلے بابری مسجد کا تالا کھولا گیا۔ وشو ہندو پریشد نے یہ مانگ رکھ دی کہ مسلمان مسجد ہٹائیں اور ہندو کو وہاں رام مندر بنانے کی اجازت ملے۔ بس کیا تھا، راتوں رات بابری مسجد ایکشن کمیٹی بن گئی۔ جیسے ابھی میرٹھ میں موب لنچنگ کے خلاف کسی غیر معروف مسلم جماعت نے احتجاج کی کال دی، ویسے ہی اس وقت بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے مسجد کے تحفظ کے لیے احتجاجی جلسے جلوسوں کا دور شروع کر دیا۔ پورے اتر پردیش میں شہر شہر اس کال پر پرجوش مسلمان نعرہ تکبیر کے ساتھ سڑکوں پر نکل پڑا۔
پہلے مسلمان سڑکوں پر اترا اور پھر اس نے نعرہ تکبیر کی صداؤں کے بیچ مسجد پر انگلی اٹھانے والے ہندوؤں کو وارننگ دی۔ بس کیا تھا، وشو ہندو پریشد سمیت پورے سنگھ پریوار کو ہندو رد عمل پیدا کرنے کا موقع مل گیا۔ اب ہندوؤں نے رام مندر قائم کرنے کے حق میں بڑے بڑے جلسے جلوس نکالنے شروع کر دیئے۔ اور دیکھتے دیکھتے ہندوستان ‘جے سیا رام’ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ پھر اڈوانی جی کی رتھ یاترا ہوئی۔ آخر بابری مسجد مشتعل ہندو مجمع نے مسمار کر دی۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ فسادات میں جیل گئے۔ لیکن بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ارکان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے تمام اہم لیڈران آج مسلم قوم کے بڑے بڑے لیڈر ہیں اور کاروں و ہوائی جہازوں پر دنیا بھر میں مزے کر رہے ہیں۔
یعنی اگر پہلے مسلمان سڑکوں پر اترے گا تو سنگھ اور بی جے پی پہلے اس کو ہندو دشمن کی امیج دے دے گی اور پھر وہ ہندو رد عمل پیدا کر جب چاہے جہاں چاہے ہندو اشتعال پیدا کر لاکھوں کے جلوس نکالے گی۔ فساد ہوں گے۔ ماری اقلیت جائے گی۔ پولس کا قہر ٹوٹے گا۔ پھر چناؤ میں ہندو ووٹ بینک ‘مسلم دشمن’ کو ہرانے کے لیے نریندر مودی کی جھولی میں ووٹ ڈال دے گا اور آپ منھ تکتے رہ جائیں گے۔
اس لیے یاد رکھیے۔ موجودہ صورت حال میں عقل یہی کہتی ہے کہ اشتعال اور جلسے جلوس کی سیاست مسلم مفاد میں قطعاً نہیں ہے۔ اس وقت اگر کوئی بھی تنظیم مسلمانوں میں اس قسم کی کال دیتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ یا تو وہ بی جے پی کی ایما پر ایسا کر رہی ہے یا پھر وہ اتنے نادان ہیں کہ ان کو ایسے جلسے جلسوں کے سیاسی اثرات کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ مت بھولیے کہ اگر نعرہ تکبیر لگے گا تو جے سیا رام کا نعرہ بھی ضرور لگے گا۔ اور رد عمل میں جیسے بابری مسجد مسمار ہو گئی ویسے ہی ہر بار مسلم قوم مسمار ہوتی رہے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے پرامن احتجاج کو مسلم مخالف طاقتیں پرامن رہنے دے گی۔ ہرگز نہیں۔ پھر وہی ہوگا جو ابھی دہلی اور میرٹھ میں ہوا۔ اس لیے یہ سمجھ لیجیے کہ موجودہ حالات میں ‘اسٹریٹ پولیٹکس’ یعنی سڑکوں پر نکل کر جلسے جلوسوں اور احتجاج کی سیاست مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس لیے نہ صرف ایسے جلسے جلوسوں سے گریز کیجیے بلکہ ایسی کال دینے والوں کو اپنا حلیف مت سمجھیے۔ ایسے جذباتی معاملات کے ساتھ کسی قسم کا مسلم لفظ ضرور جڑا ہوگا۔
اگر خالص مسلم پلیٹ فارم سے کوئی عمل ہوگا تو اس کا رد عمل خالص ہندو تنظیم کی جانب سے ضرور ہوگا اور اس عمل و رد عمل کی سیاست میں بابری مسجد کی طرح شہر شہر مسلم قوم مسمار ہو جائے گی۔ اس لیے میں نے اکثر کہا ہے کہ اس وقت جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا