طارق احمدمرزا
آہ حمایت علی شاعرؔ (1926 – 2019) بھی گزرگئے۔بظاہر ان کا دور بھی گزر گیا لیکن کئی طرح سے،بلکہ ہرطرح سے، ان کا دور ابھی جاری وساری ہے اور نجانے دنیا کے اس خطے پر کتنی مزید صدیاں جاری رہے گا۔
لڑکپن میں ریڈیوپر ان کا لکھا ہوا ایک نغمہ ’’پیاری ماں دعا کرومیں جلدبڑا ہو جاؤں‘‘ سنا کرتا تھا۔کچھ کچھ حیرت ہوتی تھی کہ بھلا ماںسے یہ درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ دعاکرومیں جلد بڑا ہوجاؤں ۔ کیونکہ مائیں تو اپنے بچوں کے لئے یہ خواہش بھی رکھتی ہیں اور دعا بھی کرتی ہیں کہ وہ جلد جلد بڑے ہوں ،ترقی کریں بڑے شخص بن جائیں۔
لیکن آج کوئی چالیس پینتالیس برس بعد جاکر یہ بات سمجھ میں آئی کہ حمایت علی شاعرکے لکھے اس گیت کا پس منظر کیا ہے۔یہ سمجھ بھی جو آئی تو یو ٹیوب پر اس گانے کی فلمائی ہیئت یعنی’’ پکچرائزڈ ورژن ‘‘ دیکھ کر آئی ہے۔واضح رہے کہ ہمارے گھر میں والدین کی طرف سے ریڈیو سننے اور بعد میں ٹیلی ویژن دیکھنے کی تومشروط اجازت ملاکرتی تھی لیکن سینما جانے پر انتہائی سخت پابندی عائد تھی،تو یو ٹیوب پر اس گانے کوباربار دیکھا توہربار ماں سے دعا کی درخواست کرنے والا بچہ اتنا ہی نظر آیا جتنا اس گانے کی فلم بندی کے وقت ہواکرتا تھا!۔
گویا وہی حالت تھی جو اس شخص کی تھی جو ایک فلم کو محض اس لئے بارباردیکھا کرتا تھا،کہ اس کے ایک سین میں پلیٹ فارم پہ کھڑی ایک دوشیزہ کے سامنے سے ایک ٹرین گزرجاتی ہے اور پھرٹرین کے گزرجانے کے بعد پلیٹ فارم پر وہ دوشیزہ نظرنہیں آتی ،تو وہ اس خیال سے باربار فلم دیکھتا تھاکہ کبھی تو ٹرین لیٹ بھی ہو گی اور وہ کچھ دیر زیادہ اس دوشیزہ پہ ایک تفصیلی نظر ڈال سکے گا!۔
لیکن میں چونکہ اس شخص سے کچھ زیادہ سمجھدار واقع ہوا ہوں ،زیادہ نہیں دو تین بار ہی یو ٹیوب پر اس گانے کودیکھا تو احساس ہوگیا کہ حمایت علی شاعرؔ کو معلوم تھا کہ برصغیرسے تعلق رکھنے والے اس بچے نے اس کی ماں کی دعاؤں کے باوجود بڑا نہیں ہونا۔(واضح رہے کہ یہ کمنٹس محض اس گیت کے حوالے سے ہیں،پوری فلم کے حوالے سے نہیں)، اور اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں خود بھی بڑا نہیں ہوا۔حقیقت تو یہ ہے کہ میری نسل کا کوئی بھی بچہ بڑا نہیں ہو سکا۔
میری نسل کے پاکستانی بچے بڑے ہوئے ہوتے توآج پاکستان بھی بڑا ہوا ہوتا۔ہم بڑے ہوئے ہوتے توہمارا ملک پاکستان بھی بڑا ہواہوتا۔بڑا ہوکرامریکہ ہوتایاجاپان ہوتا،چین ہوتا ،کوریا ہوتایا کم از کم سنگاپورجتنا بڑا تو ضرور ہوجاتااور پھر ہمارا روپیہ بھی بڑا ہوکرڈالر ہوتا،پاؤنڈ ہوتا،یورو ہوتا جاپانی ین ہوتا۔
سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی رکشے والے کا ذکرسنا جس نے رکشہ کے پیچھے لکھوایا ہوا ہے کہ ’’میں بڑا ہوکر ٹرک بنوں گا‘‘۔لیکن شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ رکشہ میری نسل کی طرح چھوٹا ہی رہے گا،اس کی قسمت میں بڑے ہوکر ٹرک بننا کہاں لکھا ہے۔ڈرائیور کی طرح اس کا رکشہ بھی ’’سٹنٹڈ گروتھ‘‘ کا مارا ہوا جوہے۔
جی ہاں،وہی سٹنٹڈ گروتھ (معدوم یا موقوف افزائش) جس کا چرچاآج کل محض فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے۔ہمارا وزیراعظم بھی غریب بچوں کی ’’سٹنٹڈ گروتھ‘‘ کی بات کرتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ بات غریبوں یا امیروں کے بچوں کی نہیں،پاکستانی بچوں کی ہے۔سارے ہی سٹنٹڈ گروتھ کے مارے ہوئے ہیں۔ ہمارا وزیراعظم خود بھی سٹنٹڈ گروتھ کا مارا ہوا لگتاہے ورنہ وہ ایسی بات ہرگز نہ کرتا۔
ان کامذہبی تعصب بھی اسی سٹنٹڈ گروتھ کاغمازہے۔
یہ کوئی گستاخی نہیں،مبینہ طورپراکثریت نے ووٹ دیئے ہیں ناں اورخود ہی کہہ رہے ہیں کہ اکثریت تو ہے ہی سٹنٹڈ گروتھ کی توانہوں نے اپنے ہم جنس کو ہی منتخب کرناہے۔بلا تفریق سب پاکستانیوں کے دماغوں کے سی ٹی سکین یا ایم آرآئی سکین کروا لیں ،بڑی بڑی سی کھوپڑیوں کے اندردماغ نہیں بلکہ پچکی ہوئی گیندوں کی طرح کچھ چیزیں نظر آئیں گی۔
حمایت علی شاعرؔ سی ٹی سکین کی سی بصارت اور ایم آر آئی سکین جیسی بصیرت رکھتے تھے،بلکہ اس سے بھی کہیں تیز۔ان کا لکھا ہوا یہ گیت محض کسی فلم کے لئے فرمائشی پروڈکشن نہیں تھی،اپنے اند ربہت بڑاپیغام لئے ہوئے تھا۔وہ اس پیغام کو یہیں پہ چھوڑ کر دیارغیر جابسے ،ایسا دیارغیر جس نے انہیںاپنا کر انہیں ہرطرح کی آزادی عطا کی ،ان کی روح نے بھی اسی آزاددیار کی فضامیں قفس عنصری سے آزادی حاصل کرنے کو ترجیح دی۔
حمایت علی شاعر نے محض سٹنٹڈ گروتھ کی نشاندہی ہی نہیں کی،انہوں نے نوخیزجوانی کے ہونٹوں میں مدفون،جبری گمشدگی کی شکارمسکراہٹوں کے لاشے بھی ڈھونڈنکالے تھے۔
اس معاملہ میں اجنتاؔ ہو،دہلیؔ ہو،لاہورؔ ہو ،لاڑکانہؔ ہو یا کوئیٹہؔ ،ہزاروں سال سے ایک ہی نقشہ نظر آتا ہے: ۔
ہزاروں سال سے اس سرزمیں پر۔۔مرے جمہور کی دنیا ہے ویراں
ہزاروں انقلابات آئے لیکن۔۔شہنشاہی کی جنت ہے گل افشاں
یہ جنت،یہی تاریک محبس۔۔مرے پھولوں کا،خاروں کا وطن ہے
سحردم جن کو کفنایا گیا ہے۔۔یہ ان خورشید پاروں کا وطن ہے
یہ گردآلود کچے راستوں پر۔۔شکستہ جھونپڑے،گرتے ہوئے کھم
کسی بوڑھے کی آنکھوںکی طرح چپ۔۔کسی بیوہ کے دامن کی طرح نم
سرِ بازار چلتی پھرتی لاشیں۔۔جہالت،بھوک،بیماری کے بیٹے
گزرتے ہیں رہ شام وسحر سے۔۔دریدہ دامنِ ہستی سمیٹے
جوانی کی سحرگوں مسکراہٹ۔۔لبوں کی قبر میں کھوئی ہوئی ہے
نظر،شمس وقمر کی تابناکی۔۔خلاؤںمیں کہیں کھوئی ہے
یہ انساں ،ہند کے آزاد انساں۔۔جھکے شانے،فسردہ رخ،نظر چُپ
سنائیںکس کو آہوں کا فسانہ۔۔خدا چُپ،ناخدا چُپ،بحرو بر چُپ
(آئینہ در آئینہ)
لیکن اپنے دیس میں شاعر کی کون سنتا ہے۔خصوصاً ایسے شاعر کی جس نے کسی کے طنزکرنے پر ، ضد میں آکر اپنا تخلص ہی شاعر رکھ لیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ اس کی ہتھیلیوں پہ ڈستے ہوئے سانپ ڈستے ڈستے اس کی رگوں میں گھس گئے تھے اور پھر اس کی انگلیوں میں تھمے قلم نے سطح قرطاس پہ جو بھی اُگلا زہر ہی اُگلا۔سچ کا زہر۔سچ کا تھوہر ،جسے نگلنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔یہ تو دیار غیر ہی ہے جہاں زہر کی بھی قدر کی جاتی ہے۔زہر سے کئی کئی قسم کے تریاق بنالئے جاتے ہیں۔وہ سب بڑے ملکوں کے بڑے لوگ جو ہوئے!۔
بڑے لوگوں کی ایک بڑائی یہ ہوتی ہے کہ وہ چہرے نہیں بدلتے،ہر قدم پرنت نئے سانچوں میں نہیں ڈھلتے،منافقت نہیں کرتے۔ایسے ہی لوگوں سے حمایت علی شاعرؔ بیزار تھے۔وہ اس قسم کے لوگوں سے بیزار دوسرے لوگوں کے لئے شاعری کرتے تھے۔
یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ اپنے وطن کے لوگوں سے بیزار ی کا مطلب وطن سے،وطن کی مٹی سے بیزاری یا غداری ہوتا ہے۔ہر گز نہیں۔ایسا ہوتا تو حمایت علی شاعراپنی ’’مٹی کا قرض ‘‘ چکانے کی مشقت کو اپنا نصب العین ہرگز نہ بناتے۔نہیں،بلکہ وہ تو بقول نجم الحسن،’’ اس عہد کے ’’پرامیتھس‘‘ تھے ،ان کا قصور محض یہ تھا کہ وہ اپنے عہد کی آنکھ اوجھل حقیقتوں پرسے پردہ اٹھاتے رہے اور سزاکاٹے رہے‘‘۔
خود حمایت علی کے الفاظ میں:’’میں نہیں جانتا کہ تاریخ کا فیصلہ میرے حق میں کیا ہوگا۔میں ،جو صداقت کی تلاش میں اپنے کفن کا احرام باندھے کبھی اپنی ذات کا طواف کرتا ہوں اور کبھی اپنی دھرتی کا۔۔اور ادب کی بارگاہ میں آواز دیئے جاتا ہوں کہ میں حاضر ہوں۔۔۔میں حاضرہوں‘‘۔(مٹی کاقرض)۔
یقیناًحمایت علی شاعرؔ بہت ہی بڑے تھے۔
ان کی طرح میں بھی منافق لوگوں سے بیزارہوں،وہ میرے اور میری طرح کے دوسرے لوگوں کے شاعر تھے۔
♦
4 Comments