پچیس جولائی کو متحدہ اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر یوم سیاہ منارہی ہے جبکہ حکومت یوم تشکر۔
وفاقی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”آج پچیس جولائی کو اپوزیشن اپنے اقتدار کے چھینے جانے کا ماتم کر رہی ہے لیکن عوام احتساب کا عمل جاری رکھتے ہوئے ان کا محاسبہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن اگر آج یومِ احتجاج منا رہی ہے، تو قوم یومِ احتساب منا رہی ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ عوام کرپشن کرنے والوں اور جعلی بینک اکاؤنٹ چلانے والوں سے لاتعلقی ظاہر کر چکی ہیں۔‘‘
دوسری جانب پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات کو ٹھیک ایک سال ہو جانے پر متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ملک کے تمام صوبائی دارالحکومتوں سمیت بڑے شہروں میں احتجاجی جلسے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، جن سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما خطاب کریں گے۔
رہبر کمیٹی کے رکن میاں افتخار نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ”اپوزیشن کی جانب سے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف صوبائی دارالحکومتوں میں احتجاجی جلسے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے شواہد بھی موجود تھے اور تمام سیاسی جماعتوں نے ان نتائج کو مسترد کیا تھا۔ اسی لیے آج پچیس جولائی کو یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے کہ یہ حکومت منتخب حکومت ہی نہیں ہے بلکہ سلیکٹڈ حکومت ہے۔ یومِ سیاہ منانے کا ایک مقصد مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانا بھی ہے۔ گزشتہ دس مہینوں میں سلیکٹڈ حکومت نے معیشت تباہ کر دی ہے۔ اسی لیے آج اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں متحدہ اپوزیشن کے جلسے جلوس منعقعد ہو رہے ہیں لیکن مرکزی تقریب پشاور میں ہو رہی ہے۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کرنے کی اجازت مل گئی ہے، تو انہوں نے کہا، ”مریم نواز کو بھی فیصل آباد میں جلسے کی اجازت نہیں ملی تھی اور الیکشن کے دنوں میں ہمیں اکثر جلسوں کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ تو پھر ہم اپنے رسک پر جلسے کرتے تھے لیکن بات اجازت سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہمیں کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ حکومت نے ہمیں روکنے کا آغاز کر دیا ہے۔ یعنی رہبر کمیٹی کے اہم رکن شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور شاید یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح رہبر کمیٹی کے ارکان کی گرفتاریوں سے یہ احتجاجی مہم روکی جا سکے گی یا ہمارے حوصلے پست کر دیے جائیں گے۔ مگر یہ ممکن نہیں۔ اب اتنے بڑے بڑے جلسے جلوس ہوں گے کہ انہیں روکنا مشکل ہو جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ہم نے چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کی تحریک چلائی، دوسرے مرحلے میں یہ جلسے جلوس اور احتجاجی مہم کا آغاز کیا۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے میں اسلام آباد میں اس وقت تک دھرنا دیا جائے گا، جب تک دوبارہ الیکشن کا مطالبہ مانتے ہوئے یہ سلیکٹڈ حکومت ختم نہ کر دی جائے۔‘‘
اسی بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن غلام سرور خان نے کہا، ”متحدہ اپوزیشن کے کارنامے سیاہ ہیں، تو وہ یومِ سیاہ ہی منائیں گے۔ لیکن ہم آج یومِ تشکر منا رہے ہیں اور ہمارے پاس مینڈیٹ ہی احتساب کا ہے۔ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور عمران خان کے کامیاب دورہ امریکا کو بھی بھرپور طریقے سے منا رہے ہیں‘‘۔
سیاست میں گہری دلچسپی رکھنے والے اور ایک احتجاجی ریلی میں شامل اسلام آباد کے ایک رہائشی پروفیسرعاصم شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارا احتجاج دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ تحریک انصاف کو پچھلے الیکشن میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی تو پھر بھی انہوں نے حکومت بنا لی تھی، ان جماعتوں کے ساتھ مل کر جن پر انہوں نے اپنی الیکشن مہم میں تنقید کی تھی۔ یعنی ق لیگ اور ایم کیو ایم بھی، اور ان آزاد امیدواروں کو بھی حکومت اور کابینہ میں شامل کر لیا گیا تھا، جنہوں نے پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو ہرایا تھا۔ یہ کس قسم کی سیاست ہے؟ ہمارا دوسرا احتجاج اس بات پر ہے کہ احتساب کے ناکام عمل کی آڑ میں حکومت نے ہوش ربا مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے، جس سے عام شہریوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
عاصم شہزاد نے مزید کہا، ”مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر کیے گیے پرانے کیسز پر پچھلے ادوار میں بھی پیش رفت نہ ہونے کے باوجود اس حکومت نے گزشتہ ایک سال میں سرتوڑ کوشش کی لیکن کسی بھی کرپشن کیس میں نہ تو کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی کوئی نئے ثبوت سامنے لائے گئے۔ اس کے باوجود تقریباﹰ پوری اپوزیشن کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، سول سوسائٹی کے کام پر قدغنیں لگا دی گئی ہیں اور ملکی معیشت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارا آج کا احتجاج ان تمام ناکردہ گناہوں کی سزاؤں کے خلاف ہے۔‘‘۔
DW