آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور ٹیکس محصولات بڑھانے جا رہی ہے۔
پاکستان میں پچھلے ایک سال کے دوران لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس رجحان میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ حکومت کو لوگوں سے مختلف ٹیکسوں کی مد میں پیسہ نکالنا ہے جبکہ عوام کو دی جانے والی مراعات میں کمی لانی ہوگی۔
عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے حوالے سے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدامات حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین سالہ سمجھوتے کا اہم حصہ ہیں، جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ارنیسٹو رامیریزریگو کے مطابق فنڈ کی طرف سے پاکستان کو دیے جانے والے اہداف سخت ضرور ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان نے ان پر پوری طرح کاربند رہنے کا وعدہ کیا ہے۔
پیر کے روز پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ کانفرنس کال میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا رہا تو وہ اپنے قرضوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے لیے حکومت کو کڑے مالیاتی فیصلے کرنا ہوں گے، جن میں ٹیکس آمدنی بڑھانا اولین ترجیح ہے۔
پاکستان میں ناقدین کاکہنا ہے کہ مشکل معاشی حالات میں حکومتی فیصلے غربت اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ حزب اختلاف کے مطابق حکومت امیروں اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جبکہ متوسط اور غریب طبقے پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں کٹوتیاں کر رہی ہے، وہاں اسے غیر ضروری فوجی اخراجات میں بھی نمایاں کمی پر بھی غور کرنا چاہیے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی آئی اے، اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے قومی اداروں کی نج کاری پر بھی اتفاق کیا ہے۔ فنڈ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اس کی بتائی ہوئی اصلاحات پر عملدرآمد کرتا ہے تو اسے دنیا بھر کے دیگر اداروں سے اڑتیس ارب ڈالر تک کے قرضے مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے پالیسی کا تسلسل اور اس پر عملدرآمد لازمی ہے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے سے پہلے ہی ایسے اقدامات شروع کر دیے تھے، جن سے معیشت سست روی کا شکار ہوتی نظر آنے لگی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گرتی گئی جبکہ شرح سود میں اضافہ ہوا۔ بجٹ کا خسارہ بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کا سات فیصد ہو چکا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر بمشکل آٹھ ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں۔
DW