بندوق کا احترام

شاہ زیب جیلانی

میں نے زندگی میں کبھی بندوق نہیں رکھی۔ لیکن ایسے دوست احباب ہیں جنہیں ہتھیاروں کا بڑا شوق ہے۔ وہ پہاڑوں بیابانوں میں جاتے ہیں اور بے زبان پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ کیا زبردست تصاویر ہوتیں ہیں ان کی: ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں مردہ جانور۔ مردانگی کا اس سے بہتر اظہار کیا ہو سکتا ہے۔

لیکن میں چونکہ ہمیشہ بندوق سے دور دور ہی رہا اس لیے اس قسم کی لطافتوں سے محروم رہا۔

کچھ دوستوں نے صلاح دی کہ پاکستان جیسے ملک میں رہنا ہے تو بندوق کو ساتھ رکھنا پڑے گا۔ لیکن میں صحافی ہوں میرا بندوق سے کیا کام؟ انہوں نے کہا پھر تو بندوق سے دوستی اور بھی ضروری ہے تاکہ اس کے عتاب سے بچے رہو اور اگر ایک بار بندوق  سے دوستی کر لو تو تمہارے لیے دروازے کھلتے جائیں گے۔ نام بھی کماؤ گے اور مال بھی۔

مشورے پر غور کیا پھر سوچا کہ نہ مجھے اینکر وینکر بننے کا شوق ہے، نہ  ٹینکوں اور جہازوں پر گھومنے کی خواہش، اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس کے باتھ ٹب  میں لیٹ کر تصویر کھچوانے کی کوئی حسرت۔ میں ٹھہرا اک معمولی صحافی، سو بہتر ہے کہ اپنے کام سے کام رکھوں اور باقی سب اوپر والے پر چھوڑ دوں۔

لیکن اگر اوپرخدا ہے تو ہمارے یہاں نیچے بندوق۔ آپ جتنا بھی اس سے فاصلہ رکھیں وہ بار بار آپ کے راستے میں آ جاتی ہے۔ پچھلے دنوں حالات نے لا کر بندوق کے سامنے بٹھا دیا۔ اس نے پوچھاکہ آخر ہم سے کیا شکایت ہے؟ میں نے کہا کوئی شکایت نہیں۔ اس نے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آج کھل کر مکالمہ ہو جائے۔ میں نے پھر کہا سچ مانیے کوئی شکایت نہیں۔ تنگ آ کر بندوق نے خود ہی سمجھانا شروع کردیا:۔

دیکھیں، میں آپ کی محافظ ہوں۔ کئی محاذوں پر بیک وقت لڑرہی ہوں۔ ہر وقت قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہوں۔ مجھے کوئی شوق نہیں کہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مداخلت کروں لیکن بار بار لوٹ کھسوٹ ہوتے دیکھ کرمجبوراً حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ 

اب بندوق کے ساتھ بحث تو نہیں ہو سکتی۔ ورنہ بندے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے  وہ تھے ہی نہیں۔ تبدیلی ایسے آ جاتی ہے کہ جانے والا پوچھتا  رہ جاتا ہے کہ کیوں نکالا ؟ بندوق کا اپنا ایک ڈسپلن ہوتا ہے۔ اس کے سامنے گستاخانہ سوچ بہت بڑا جرم ہے۔ اسے تابیداری چاہیے اور وہ بھی دو سو فیصد۔

بندوق کو میڈیا والوں پر خاص غصہ ہے، حالانکہ جتنی تا بعداری وہ دکھاسکتے ہیں دکھارہے ہیں۔ اور کیا کریں؟ لیکن وہ بھی شاید اپنے مزاج سے مجبور ہے۔ وہ قائل ہے کہ یہ چمن بس اسےکے دم سے ہے۔ باقی سارے نادان ہیں، گمراہ ہیں یا پھر بِک چکے ہیں۔ اُن میں وہ وفاداری اور سچائی نہیں جو اُس میں ہے۔

بندوق سے عرض کیا کہ حضور والا یہ بیس بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ مختلف عقیدوں، زبانوں، سیاسی فکر کے لوگ بستے ہیں یہاں۔ اب یہ سب کے سب آپ کی طرح کی اعلٰی و نفیس سوچ تو نہیں رکھ سکتے۔ کیا ان کو کچھ اپنے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟

بندوق نے کہا ارے یہ سب تو بھیڑ بکریاں ہیں، جہاں ہانک دو چلے جاتے ہیں۔،، بات سننے میں عجیب لگی لیکن ہے تواتنی بے بنیاد بھی نہیں ہو سکتی۔

 آخر چرواہے کا یہی تو کام ہوتا ہے۔ وہ ایک چھڑی اور چند خونخوارکتوں کے زور پر پورے کے پورے ریوڑھ کو کہاں کہاں پہنچا دیتا ہے۔  توڑنا جوڑنا، خریدنا بیچنا، ڈرانا دھمکانا، بندوق کے زور پر آپ کسی سے کچھ بھی کرا سکتے ہیں کیونکہ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی کمزوری  یا مجبوری  ہوتی ہے جو اس سے ڈھکی چھُپی نہیں۔ بندوق اسی لیے مقدم ہے اور اس کا احترام ہماری مجبوری ہے۔

مسئلہ صرف اتنا ہے کہ بندوق والا نظام  زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا، کیونکہ کچھ بھی کر لیں بندوق کی نال سے کبھی پھول نہیں کھلتے۔ تاریخ میں کتنی ایسی مثالیں ہیں جب اس طرح کے نظام اپنے ہی بوجھ تلے دھنس گئے۔ بندوق کی گولیاں ختم ہوگئیں لیکن حق کی آواز  گونجتی رہی۔

DW

Comments are closed.