بیرسٹر حمید باشانی
ہم سوشل میڈیا کے دور میں زندہ ہیں۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اس کے بغیر اب زندگی کا تصور محالہے۔ یہ رابطے اور ابلاغ کا سستا، تیز رفتار اور موثر ذریعہ ہے۔ ذاتی رابطوں سے لیکر سماجی، سیاسی اور کاروباری رابطوں کے لیے اس کا ستعمال عام ہے۔ سماج کا کوئی طبقہ یا گروہ ایسا نہیں ہے، جو اس نعمت سےا ستفادہ نہ کر سکے؛ چنانچہ اس کے مفید اور کارآمد ہونے پر کوئی کلام نہیں۔ جدید دنیا نے اس کو ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں ہماری زندگیوں میں اس کا عمل دخل کئی گنازیادہ بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو سوشل میڈیا کوایک ضرررساں چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہیں۔ ایسے لوگوں میں کچھ مذہبی اور سماجی قدامت پسند دانشور شامل ہیں۔ یہ لوگ مشرق و مغرب سمیت ہر کلچر اور مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ آئے روز سوشل میڈیا کے خلاف نت نئے دلائل دیتے رہتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تشویش یہ ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کے زریعے فحاش مواد کا پھیلاو اور رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ جو نوجوان نسل میں اخلاق باختگی اور بے راہ روی کا موجب نتی ہے۔
اگر اس بات کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی وزن نہیں نظر آتا۔ تاریخ انسانی میں کمیونیکیشن کی ہر شکل اور ہرطریقے کے ساتھ کہیں نہ کہیں فحاشی و عریانی کے الزامات اور مسائل بھی اٹھتے رہے۔ قدیم تاریخ میں بت تراشی کے فن کو جہاں کچھ لوگوں نے دیوتا اور خدا بنانے کے لیے استعمال کیا ، وہاں یہ فن جنسی تصوارات کو مجسم شکل میں پیش کرنے کا بھی موجب بنا۔
انسان نے جب شروع شروع میں لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس میں بھی قدامت پرست سماج میں جنس مخالف کے ساتھ رابطے کا خطرہ نظر آیا۔ فن خطاطی ، پینٹنگ اور مصوری میں یہ خطرہ اور بھی زیادہ نمایاں رہا ہے۔ اور ابتدا میں کچھ لوگ ان خدشات و خطرات کی بنا پر ان پر پابندی کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ اور اسلامی دنیا میں پرنٹنگ پریس پر پابندی بھی اسی سوچ کا اظہار تھی۔ پرنٹنگ پریس کو اسلامی دنیا میں صرف اس لیے ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شیطان کی ایجاد ہے۔ بلکہ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے رجعت پسند اور قدامت پرست اشرافیہ اور حکمران طبقات کو اپنی طاقت و اختیار کے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔
انہیں اس بات کا بخوبی خدشہ تھا کہ پرنٹنگ پریس سے علم و شعور پھیل سکتا ہے، جو ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دوسری طرف جو مذہبی پیشوا پرنٹنگ پریس کے خلاف فتوے دیتے اور دلاتے تھے ان کے ذاتی مفادات مروجہ نظام کے ساتھ وابستہ تھے۔ ابلاغ کا جو عام طور پر زبانی کلامی نظام قائم تھا اس کے ساتھ ان کے ذاتی مفادات اور روزی روٹی وابستہ تھی۔ اس وقت کا ابلاغ سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ زبان تھا۔ علم کی سینہ بہ سینہ منتقلی ہوتی تھی۔
دوسرا مقبول ترین طریقہ خطاطی تھی۔ جس سے لاکھوں لوگ منسلک تھے۔ ایک مخصوص اور محدودطبقے کی خواندگی تک رسائی تھی۔ اس مخصوص طبقے کی ابلاغ کے ان مروجہ طریقوں پر اجارہ داری تھی، جو اس اجارا داری کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ پرنٹنگ پریس میں انہیں اپنی جمی جمائی پوزیشن ، حیثیت اور کاروبارکو خطرہ نظر آتا تھا۔
صرف پرنٹنگ ہی نہیں ابلاغ کے دیگر ذرائع بھی اس صورت حال کا شکار ہوئے۔ پسماندہ قدامت پرست سماج میں خواتین کو طویل عرصے تک لکھائی پڑھائی سے دور رکھنے کے پیچھے ایک خوف یہ بھی کار فرما تھا کہ وہ جنس مخالف سے خط و کتابت کر سکتی ہیں۔ برصغیر کے کئی قدامت پرست علما اور دانشور خواتین کو اخلاق باختگی سے بچانے کے لیے ان کو سکول اور تعلیم سے دور رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔
پھر جب عورت نے پڑھنے لکھنے کا حق کسی طریقے سے لے ہی لیا تو ان کو ناول ، افسانے اور شاعری سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا رہا۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تاریخ میں آج تک ابلاغ کا کوئی ایسا ذریعہ سامنے نہیں آیا، جسے ابتدائی دور میں اس کے غلط استعمال ہونے کے خدشے کے پیش نظر سماجی اور حکومتی سطح پر روکنے کی کوشش نہ کی گئی۔
ہمارے دور میں سوشل میڈیا کی مخالفت میں قدامت پرست، روایتی رجعتی قوتیں اور وہ طبقات پیش پیش رہے ہیں ، جن کے کاروباری مفادات ، سیاسی سماجی، مذہبی اجارہ داریاں داو پر لگنے کا اندیشہ تھا۔ میڈیا کے موجودہ مقبول ترین اورعام دھارے کے ذرائع کو بھی ابتدا میں ہو بہو اسی صورت حال سے گزرنا پڑا۔ ٹیلی ویثرن کے خلاف بھی فتوے بازی ہوئی، پھر اس کا سب سے زیادہ استعمال ان لوگوں نے ہی کیا جو اس کے خلاف تھے۔
مگر اس ساری کہانی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا میں بالکل کوئی خطرہ نہیں۔ ظاہر ہے کسی بھی دوسرے میڈیا کی طرح سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا خطرہ موجود ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا کو پابند کرنے یا محدود کرنے کے بجائے ان خطرات کو سمجھنے اور ان کے تداراک کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا کے ساتھ ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس کے ذریعےجھوٹی خبریں اورمعلومات پھیلانا آسان ہے۔ یہ جھوٹی خبریں اور معلومات ایک ہی دائرے کے اندرمخصوص لوگوں میں گردش کرتی رہتی ہیں، جن پر اس سرکل میں موجود لوگ سچائی کا گمان کرنے لگتے ہیں۔
دوسرا خطرہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں زیادہ تر ہم خیال لوگوں کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا رہتا ہے، جس میں اپنی سوچ اور فکر کے حق میں دلائل دیے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ عمل میں مصروف لوگوں کو یہ غلط یقین ہو جاتا ہے کہ صرف ان کے خیالات اور نظریات سچ ہیں۔ اس سے سماج مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، جس کا پہلاشکار سچائی ہوتی ہے، کیونکہ سچائی کو کوئی جاننے یا ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کا ایک بڑا خطرہ سائبر بد معاشی ہے۔ یہ خصوصا بچوں اور کم عمر لوگوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں نے سائبر بدمعاشی سے گھبرا کو خود کشی کی ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ سیاست میں بھی ایک خوفناک ہتھکنڈا بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں جو بد معاشی اور غنڈا گردی گلی محلے میں ہوتی تھی اب وہ سائبر سپیس پر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں اکثر سیاست دانوں اور لکھاریوں کو شکایت ہے کہ کچھ لوگ سائبر بدمعاشی کرنے میں مصروف ہیں۔ علمی یا منطقی دلیل کا دور ختم ہو رہا ہے۔ سیاسی مخالف کی بات کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے کچھ لوگ گالم گلوچ اور بد تمیزی پر اتر آتے ہیں۔ سیاسی مخالفین پر فوری طور پر غداری کا فتوی لگایا جاتا ہے۔ صحافی اور کالم نگار پر لفافہ صحافت کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کو دوسروں کی عام شہرت کو داغدار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور شخصیات کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات بھی بسا اوقات جھوٹے ہونے کے باوجود ان کی شہرت یا نیک نامی کے لیے داغدار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان تمام خطرات اور خدشات کو بنیاد بنا کر ارباب اختیار کو سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کا جواز ملتا ہے۔ اسی تناظر میں دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر مختلف نوع کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے سائبر سیکورٹی ایکٹ ان پابندیوں کی کہانی سناتے ہیں۔ خطرات کی آڑ میں کچھ ممالک نے اظہاار رائے پر سخت اور غیر ضروری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سوشل میڈیا کی شکل میں عام آدمی کے ہاتھ میں ایک طاقت ور موثر ہتھیار لگا ہے۔ اس ہتھیار کو کمزور اور بے آواز طبقات کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس ہتھیار کو ذمہ داری سے استعما ل کیا جانا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ حدود و قیود سے مکمل طور پر آزادسوشل میڈیا قومی اور عالمی مسائل پیدا کر سکتا۔ یہ ہمیں اندھا کر سکتا ہے۔ سچ اور جھوٹ کو گڈ مڈ کر سکتا ہے۔ مگر یہ اکسویں صدی کی بہت بڑی حقیقت ہے، جس کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ اس کے مثبت پہلو کو سمجھا اور ان سے استفادہ کیا جائے۔
♦