محمد حسین ہنرمل
“دہشت گردی اور انتہا پسندی چونکہ مذہب کی غلط تعبیر کے نتیجے میں معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے یوں اس ناسور کی بیخ کُنی کیلئے سب سے اہم فریضہ علماء کرام ہی کابنتا ہے ۔ نائن الیون کے بعد یہ ناسور پورے آب وتاب کے ساتھ نہ صرف افغانستان میں پھیل گیا بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ، خیبرپختونخوا اور جزوی طور پر ملک کے دوسرے حصے بھی اس کی زد میں آئے۔ لاکھوں کلمہ گو مسلمان اس خونخواربیانیے پر عمل رکھنے والوں کے ہاتھوں شہید اور اس سے زیادہ تعداد میں لوگ زخمی اور دربدر ہوگئے ۔
اور حال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر خوف پھیلانے اور ایک دوسرے کی گردن زنی کا یہ کھیل خطے میں اب بھی جاری ہے ۔مذہب کی غلط تعبیر کے نتیجے میں تشکیل پانے والے اس بیانیے کو پاکستان میں جن علماء اور مذہبی اسکالرز نے ڈنکے کی چوٹ پر رد کیا تھا ان میں ایک شیخ الحدیث مولانا حسن جان مدنی ، دوسرا مولانا محمدخان شیرانی اور تیسرا مردان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد فاروق خان تھے۔
یقیناً یہ ایک پُرخطر اور رسکی محاذ تھا اور اس محاذ پر شیخ مولانا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان اپنی جانوں سے گزر گئے تاہم مولانا محمدخان شیرانی کئی حملوں کی زد میں آنے کے باوجود محفوظ رہے ۔
شیخ الحدیث مولانا حَسن جان پشاور کے صدر میں واقع مدرسے جامعہ امدادالعلوم (درویش مسجد) کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے ۔ مولانا حسن جان مدنی پاکستان کے اُن اٹھارہ خوش قسمت طلباء میں سے تھے جنہیں ستر کی دہائی میں سب سے پہلے مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کاشرف حاصل ہوا تھا ۔
مدینہ منورہ میں چار سال قیام کے دوران انہوں نے مسجد نبوی میں قرآن حفظ بھی کیا۔ وطن واپس لوٹے تو لاہور کے جامعہ اشرفیہ میں شیخ محمد ادریس کاندھلوی اور مولانارسول خان ہزاروی کے شاگرد بنے اور وہاں سے سن 1967 میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ 1971میں جامع پشاور سے ایم اے اسلامیات میں گولڈ میڈل لینے کے بعد آپ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ۔ چارسدہ کے جامعہ نعمانیہ ، کوہاٹ کے جامعہ دارالعلوم ، اکوڑہ خٹک اور مردان کے مدارس میں مسلسل پندرہ سال تک درس و تدریس سے منسلک رہے اور بعد میں پشاور کے صدر میں واقع مدرسے جامعہ امدادالعلوم میں شہادت تک علم حدیث پڑھاتے رہے ۔
اسلامی تاریخ سے بے پناہ لگاو نے مولانا شیخ حسن جان سے نہ صرف بے شمار ملکوں کے اسفار کروائے بلکہ یہ اشتیاق انہیں بلاد عرب میں بدر، احد، خندق حدیبیہ ، جعرانہ ،حنین ، سیف البحر اور بیت المقدس کے علاوہ حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان حضرت یونس اورحضرت سلمان فارسی کے مزارات پر بھی لے گئے۔
نوے کے عام انتخابات میں جے یوآئی کی ٹکٹ پر چارسدہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار بنے تو ممتاز سیاستدان عبدالولی خان کو بھی مات دے گئے ۔ نائن الیون کے بعد ملک کے قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں جب جہاد کے نام پر خودکش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا تو انہوں نے بڑے واشگاف الفاظ پر اسے ناجائز اور خلاف شریعت قرار دیا ۔ مولانا حسن جان نہ صرف پاکستان میں خودکش حملوں کو غیرشرعی قرار دیتے رہے بلکہ وہ اپنے وسیع علمی فہم کی بنیاد پر افغان طالبان کی مزاحمت کے بارے میں بھی تحفظات رکھتے تھے ۔
اس زمانے میں افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی جسے طالبان ایک کٹھ پتلی حکومت سمجھتے تھے ۔ مولانا حسن جان اپنی تقاریر میں وقتاً فوقتاً اس رائے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ مزید خون خرابے سے بہتر ہے کہ افغانوں کے وسیع تر مفاد میں افغان طالبان حامدکرزئی پر اعتماد کرکے ایک مشترکہ حکومت تشکیل دیں۔ اس اتحاد کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے لئے افغان سرزمیں پر مزید ٹھہرنے کا جواز ختم ہوگا اور دوسرا یہ کہ امت خون خرابے سے بھی بچ جائے گی۔
مولانا حسن جان کے قریبی ذرائع کے مطابق , خودکش حملوں کوحرام قرار دینے پر جس طرح پاکستان میں بعض قوتیں مولانا حسن جان پر برہم تھیں اسی طرح افغان طالبان کو بھی ان کی آراء اور تجاویز سے شدید اختلاف تھا ۔مختصر یہ کہ اس بیانیے اور موقف پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانے والے شیخ حسن جان کو جب دباو میں لانے کی کوششیں بھی کارگر ثابت نہ ہوسکیں تو پھر اس توانا آواز کوہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کی ٹھان لی گئی ۔ اور پھر ستمبر2007 کو رمضان کے مبارک مہینے میں عین افطار کے وقت یہ آواز خاموش کردی گئی ۔
مولانا حسن جان کے بیٹے مولانا فخرالحسن کے مطابق افطاری سے کچھ دیر قبل تین باریش پگڑی والے کالے رنگ کے کار میں انکے گھرآئے اور انہوں نے انکے والد کو نکاح پڑھوانے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے۔بقول ان کے کچھ دیر بعد ان کو فون پر اطلاع ملی کہ مولانا حسن جان کو وزیر آباد کے علاقے میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ”۔ جامعہ حقانیہ سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ جس دن مولانا حسن جان کی شہادت کی خبر چہا ردانگ عالم میں پھیل گئی ، اسی رات جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان انتہا پسند طلباء کے حلقوں میں کر مٹائیاں تقسیم کی گئیں جن کے ہاں وہ واجب القتل تھے ۔
شیخ حسن جان کی شہادت کو اب بارہ برس بیت گئے ہیں لیکن خطے میں خودکش حملوں اور افغانستان میں خانہ جنگی کا وہی سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
کاش! ہمارے دیگر علماء بھی مولانا حسن جان کی طرح خودکش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے تو مجھے یقین ہے کہ پَلوں کے نیچے اتنا سارا پانی نہ بہتا۔کاش! افغان طالبان بارہ سال پہلے اس مجتہد مولانا کی رائے کو ٹکرانے کی بجائے اس پر حامی بھرتے تو غالب امکان تھا کہ بیرونی افواج کو وہاں مزید دس سال ٹھہرنا پڑنا اور نہ ہی لاکھوں کی تعدا د میں افغان کلمہ گو مسلمان شہید اور زخمی ہوتے ۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف یہی بیانیہ مولانا محمدخان شیرانی نے بھی بہت پہلے اپنایا تھا اور تادم تحریر اس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مولانا شیرانی اسلام کے نام پر بپا ہونے والی اس پرائی جنگ کی مخالفت میں مولانا شیخ حسن جان شہید سے بھی دوقدم آگے تھے۔ مولانا شیرانی پچھلے سترہ اٹھارہ سال سے مسلسل عوامی اور سیاسی اجتماعات میں کھل کر اس جنگ کوفساد کہتے آئے ہیں۔ ان کی اس دلیرانہ موقف سے اختلاف کرنے والی قوتوں نے پہلی مرتبہ جولائی 2004 کو قلعہ سیف کے قریب ریموٹ کنٹرول بم حملے کے ذریعے ان کی گاڑی کونشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے رفقاء سمیت محفوظ رہے ۔ پھرمارچ 2009 کو پشین میں ایک جلسے میں تقسیم اسناد کے بعد ان کو ایک خودکش حملہ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن مولانا اس حملے میں بھی محفوظ رہے تاہم مدرسے کے چار طالبعلم شہید ہوگئے ۔
ملک میں فرقہ وارایت کے ناسور کے خلاف بھی مولانا شیرانی کے اقدامات صد قابل تحسین ہیں۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے بلوچستان میں چند سال پہلے مولانا شیرانی ہی کی کاوشوں سے اتحاد ملت ِ اسلامیہ محاذ (امام) کے نام سے مختلف فرقوں پر مشتمل ایک تنظیم قائم ہوئی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بارے میں بے لاگ موقف رکھنے کے جرم میں مولانا شیرانی کو نہ صرف جان سے مارنے کے حربے آزمائے گئے بلکہ ان کو منکر جہاد ، رافضی اور خمینی کا دوست بھی قرار دیا گیا۔ لیکن ماشااللہ وہ ہنوز اپنے اس موقف پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
شیخ حسن جان شہید اور مولانا شیرانی کی طرح دہش تگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خونخوار بیانیے کو چیلنج کرنے والوں میں ایک نام ڈاکٹر محمد فاروق خان کا بھی ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والے یہ مرد جری بھی ایک متبادل بیانیے کے ساتھ نکلے تھے– اس عظیم مقصد کیلئے انہوں نے کتابیں لکھیں , اخبارات میں کالمز لکھ ڈالے اور ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیا – جب دشمنوں کے ہاں ناقابل برداشت ٹھہرے تو 2010 کو ان کو اپنے کلینک میں ان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا گیا – اناللہ واناا لیہ راجعون, –
مشہور صوفی شاعر عبدالرحمان بابا نے شاید یہ شعر مولانا شیخ حسن جان شہید، ڈاکٹر فاروق خان شہید اور مولانا شیرانی جیسے صاحب عزیمت و استقامت لوگوں کے بارے میں کہا تھا
لکہ ونہ مستقیم پر خپل مقام یم کہ خزان راباندی راشی کہ بہار ۔