طارق احمد مرزا
کافی عرصہ پہلے صدر ٹرمپ نے برطانوی ٹوری لیڈر بورس جانسن کو “برٹش ٹرمپ“قرار دیا تھا اور اب جبکہ ترکی النسل بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے ہیں تو یارلوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔لیکن جب معاملہ حساس نوعیت کے بین الاقوامی معاملات کو سلجھانے یا الجھانے کا ہو تو پھر قدرتی طورپر سوال اٹھتا ہے کہ کیسے گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو؟۔
دونوں شخصیات میں کچھ تو مشترکہ اقدار اور خصوصیات ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دونوں ایک جیسے دیوانے نہیں جن کا ذکربعد میں کیا جائے گا۔
اول تو دونوں شخصیات اپنے منفرد بالوں کے سٹائل سے شہرت رکھتے ہیں۔اور اسی طرح غیر قدامت پسند اور روایت شکن رویوں کی وجہ سے عوام اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔اوٹ پٹانگ حرکات اور ڈرامہ بازی میں البتہ بورس جانسن ڈونلڈ ٹرمپ سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔بورس جانسن ٹرمپ سے کہیں زیادہ ” منہ پھٹ” یعنی صاف گوبھی واقع ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک موقع پر صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کے عہدہ کے بالکل بھی قابل نہیں۔
دونوں دیوانے بے پناہ خود اعتمادی بلکہ بسا اوقات غیر حقیقی حد تک خود اعتمادی کامظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں کے بعض ناقدین یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان دونوں کو “بارڈر لائن پرسینیلٹی ڈس آرڈر” کا مرض لاحق ہے ۔
تاہم ان کی یہ خود اعتمادی ان کے چاہنے والوں کو اس لئے پسند ہے کہ وہ اپنی اس غیرمعمولی خوداعتمادی کو اپنے اپنے ملک کو پھر سے گریٹ بنانے کے سلوگن اور عزم کا ذریعہ بنانے کے لئے کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ بورس جانسن نے اپنی پہلی تقریر میں یہی کہا کہ ہم نے بھک منگوں یا کمی کمہیاروں کی طرح یورپی یونین کی چودھراہٹ سے جان نہیں چھڑانی بلکہ برابری کی سطح پر۔ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ کو پھر سے گریٹ بنانے کے سلوگن کی وجہ سے پاپولرووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن بورس جانسن اور ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ممالک کے زمینی حقائق میں زمین و آ سمان کا فرق ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جب براسر اقتدار آئے تو ان کو اوباما دور کی مستحکم اور ترقی کی راہ پہ پہلے سے گامزن اکانومی ورثہ میں ملی جس کو مزید آگے چلانا کچھ مشکل نہ تھا۔اس کے برعکس بورس جانسن بریگزٹ زدہ معاشی بحران میں مبتلا برطانیہ کو سنبھالادینے کی کٹھن آزمائش کا سامناہے۔
ڈونلڈٹرمپ امریکی صدارتی نظام کی بدولت خود کو مختلف نوعیت کے بحرانوں سے بخوبی نکال لیتے ہیں،اس کے برعکس بورس جانسن بے رحم برطانوی پارلیمانی نظام کا حصہ ہیں۔اگر وہ سرپہ پڑے بریگزٹ کے پھڈے کو اپنے وعدوں کے برخلاف بخوبی حل نہ کر سکے تو ان کا حشر بھی جند ماہ بلکہ چند ہفتوں کی طرح وہی ہو گا جو ان کی پیشرومسزتھیریسا مے کا ہوا،عدم اعتماد یا جنرل الیکشن کی نوبت باآسانی پیش آسکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں ،جس کا عملی مظاہرہ وہ کئی بارکر چکے ہیں،لیکن بورس جانسن فی الحال اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے تو ان دونوں ممالک میں خواہ دیوانے حکمران ہوں یا سیانے اور چاہے کوئی بھی پارٹی برسراقتدارہو۔کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم ان دونوں بڑے چودھریوں کے کمی کمہیار اور منگتے ہی رہے ہیں اورمنگتے ہی رہیں گے۔خواہ وہ پرانا پاکستان تھا یا نیا پاکستان ہو،میراکام بھیک مانگنا ہے،مانگتاہی رہوں گا۔
دنیا جانتی ہے کہ اس معاملہ میں میری خوداعتمادی ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن دونوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اور اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر میری اوٹ پٹانگ حرکات دنیا بھر کی توجہ کا مرکزبھی بنتی رہتی ہیں۔
♦