توہین رسالت کا الزام

محمد شعیب عادل

ماہنامہ نیا زمانہ کا دفتر کتابوں کا ایک چھوٹا سا شوروم بھی تھا جہاںکتابوں کے ریک رکھے تھے۔ دو ریک تو اپنے ادارے کی شائع شدہ کتابوں اور میگزین کے لیے تھے ۔ ایک ریک میں دوسرے پبلشرز کی کتابیں ہوتیں اور ایک ریک میں وہ کتابیں و رسائل رکھے ہوتے جو ماہنامہ نیا زمانہ کو تبصرہ کتب کےلیے موصول ہوتے تھے۔ تبصرہ کتب کے لیے ماہنامہ نیا زمانہ کا ایک صفحہ مختص ہوتا تھا۔ تبصرہ کتب کے لیے کئی سیاسی ومذہبی کتب موصول ہوتیں مگر ضروری نہیں ہوتا تھا کہ ہر کتاب پر تبصر ہ بھی کیا جائے۔ مذہبی نوعیت کی کتب پر تبصرے نہیں کیے جاتے تھے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف زیادتیوں کی مذمت کرنے پر کچھ احمدی مرزا طاہر احمد یا مرزا ناصر احمد کی کتب بھی بھیج دیتے تھے شاید ان کا خیال تھا کہ چونکہ میں ان کا حامی ہوں اس لیے مجھ میں احمدیت قبول کرنے کے جراثیم موجود ہیں لہذا وہ اپنا تبلیغی فرض بھی پوری تندہی کے ساتھ ادا کرتے رہتے تھے۔

مئی 2014 کے آخری ہفتے کا واقعہ ہے کہ ایک باریش نوجوان، جو اپنے حلیے سے کسی دینی مدرسے کا طالب علم لگتا تھا، آیا اور جیب سے ایک چٹ نکال کر میرے سامنے رکھی اور کہنے لگا یہ کتاب چاہیے۔ کتاب کا نام تھا، عدالت عالیہ تک کا سفر از محمد اسلام بھٹی۔ میں نے جواب دیا کہ اس کتاب کو چھپے چار پانچ سال ہو گئےہیں یہ تو ختم ہو گئی ہے۔ تو کہنے لگا ایک کاپی چاہیے کہیں سے پیدا کر دیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہے، مارکیٹ سے پتہ کرلیں شاید مل جائے۔ اس نے اپنے موبائل سے کسی سے بات کی کہ وہ کتاب دستیاب نہیں ہے۔ اور پھر وہ چلا گیا۔

مجھے ہلکا سا احساس ہوا کہ معاملہ گڑ بڑہے مگر وہم سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیا۔ چند دن بعد ایک اور باریش صاحب آفس آئے اور مجھ سے بھٹی صاحب کی کتاب کے متعلق پوچھا میں نے کہا کہ کتاب ہم نے شائع کی تھی مگر اب ختم ہو چکی ہے ۔ اب میں پریشان ہوا کہ معاملہ گڑبڑ لگتا ہے۔ ان صاحب کی گفتگو انتہائی شائستہ تھی اوروہ ریکس میں لگی کتابیں دیکھنے لگے ۔ مرزا طاہر احمد کی ایک کتاب اٹھا کر کہنے لگے محترم کیا آپ قادیانیوں کی کتابیں بھی فروخت کرتے ہیں؟۔

میں نے کہا نہیں ۔ فروخت ہونے والی کتابیں دوسرے ریک میں لگی ہیں، جو ریک آپ دیکھ رہے ہیں اس میں تبصرہ کتب کے لیے موصول ہونے والی کتابیں ہیں ۔ نیا زمانہ کو ہر قسم کی کتابیں تبصرے کے لیے موصول ہوتی ہیں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں اس میں سنیوں کی مذہبی کتابیں بھی پڑی ہیں لیکن ہم مذہبی کتابوں پر تبصرہ نہیں کرتے۔

محترم قادیانیوں کی کتابیں رکھنا بھی کوئی اچھی بات نہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ دوسری کتب دیکھنا شروع ہو گئے ، تمام کتابوں کا جائزہ لے کر وہ واپس چلے گئے۔ میری چھٹی حس کسی خطرے کا احساس دلانے لگی میں نے فوری طور پر احمدیوں کی ارسال شدہ کتابوں کو ردی کی نذر کیا کہ کہیں ان کی فروخت کا الزام نہ لگ جائے۔

تقریباً ایک ہفتے بعد 13جون 2014 کو چار بجے شام کے قریب دس بارہ دینی مدرسے کے جوان اچانک دفتر داخل ہوئے اور ان کے ساتھ پولیس بھی تھی۔ پولیس آفیسر نے اپنا تعارف کرایا کہ میں تھانہ ریس کورس کا ایس ایچ ہوں اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب، اسلام بھٹی کی خودنوشت اس کے ہاتھ میں تھی، آپ نے شائع کی ہے ۔ میں نے کہا جی بالکل ۔ آفیسر نے کہا کہ یہ حسن معاویہ ہے، مولانا طاہر اشرفی کا چھوٹا بھائی ہے۔ ان کا تعلق عالمی مجلس ختم نبوت سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ احمدیوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں اور بیچتے ہیں اور اس لیے آپ توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یہ سننا تھا کہ میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔ ملتان میں مجلس ختم نبوت کے ایک عہدیدار سے تھوڑی بہت سلام دعاتھی میں نے انہیں فون کیا کہ آپ اپنے بندے کوسمجھائیں مجھ پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا رہا ہے ۔ انھوں نے کہا مجھ سے بات کراو۔ میں نے فون حسن معاویہ کو دیا اس نے کونے میں جاکر کوئی بات کی اور فون مجھے واپس دے دیا میں نے پوچھا کیا کہتا ہے کہنے لگے یہ ہماری تنظیم کا نہیں ہے اس کا ہمارے سے کوئی تعلق نہیں۔

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ختم نبوت کے نام سے کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں کیونکہ ان میں آمدنی کافی ہوجاتی ہے ۔ ایک مجلس تحفظ ختم نبوت ہے، ایک انٹرنیشنل ختم نبوت ہے اور ایک عالمی مجلس ختم نبوت ہے جس کا نمائندہ حسن معاویہ تھا۔اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس تنظیم کا سرپرست اعلیٰ لاہور ہائی کورٹ کا سابق چیف جسٹس خواجہ شریف ہے۔ (اس کی تفصیل بھی بعد میں بیان کروں گا)۔

میں نے ایس ایچ او کو کہا کہ اس کتاب کے منصف ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں اور انھوں نے اپنی خود نوشت لکھی ہے اس میں ان کے مذہب کی کوئی تبلیغ نہیں ہے ۔ اس دوران حسن معاویہ اور اس کے ساتھی میرے آفس کی تلاشی لینا شروع ہوگئے۔ایک ایک کتاب چیک کرتے اور فرش پر پھینکتے جاتے ، الماریاں چیک کرتے ایک کتاب جس کے ٹائیٹل پر ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر تھی ، وہ پکڑی اور پولیس کو کہا کہ دیکھیں یہ بھی احمدیوں کی ہے۔ ایس ایچ او نے وہ کتاب بھی قبضے میں کر لی۔

پولیس آفیسر نے کہا کہ دیکھیں جی انھوں نے آپ پرتوہین رسالت کا الزام لگا یا ہے اس کا فیصلہ تو اب تھانے میں ہوگا ۔آپ کو ہمارے ساتھ تھانے جانا ہوگا۔ میرا گلا خشک ہو گیا میں پانی پینے کے لیے دفتر میں رکھے کولر کی طرف بڑھا تو پولیس والے نے میرا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا شاید وہ سمجھا کہ میں بھاگنے لگا ہوں اس نے کہا ٹھہرو ہم تمہیں پانی پلائیں گے۔ خیر ایک پولیس والے نے پانی کا گلاس دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں کیا میں ایک فون کر لوں اس نے کہا کر لیں جس پر حسن معاویہ نے احتجاج کیا کہ چلیں جی تھانے چلیں وہاں جا کر فیصلہ کریں گے۔

خیر میں نے فوری طور پر اپنے دو قریبی عزیزوں کو فون کیا اور بتایا کہ پولیس مجھے توہین رسالت کے الزام میں پکڑ کر تھانہ ریس کورس لے جارہی ہے اور ہو سکتا ہے یہ میری آخری کال ہو۔ لہذا جو کچھ کر سکتے ہیں ہیں کر لیں۔

پولیس نے میرا دفتر سیل کیا اور مجھے پکڑ کر نیچے لے گئی ۔ باہر دیکھا تو مزید دس پندرہ مدرسے کے طالب علم اور پولیس کی تین موبائل گاڑیاں کھڑی تھیں۔ پولیس والے رائفلیں ہاتھ میں تھامے کھڑے تھے آس پاس کے دفتروں والے لوگ بھی باہر نکل کر دیکھ رہے تھے کہ آخر کیا معاملہ ہے کہ اتنی پولیس اور نوجوان کھڑے ہیں۔ پولیس نے مجھے موبائل میں بٹھایا۔ خیر مجھے ہتھکڑی تو نہ لگائی مگر چار پولیس والے میرے ساتھ بیٹھے تھےاور مجھے تھانہ ریس کورس لے جارہے ہیں گاڑی کے پیچھے حسن معاویہ اور اس کے بیس پچیس ساتھی موٹر سائیکلوں پر ہمارے پیچھے آرہے تھے۔

کہانی ابھی جاری ہے۔۔۔

دوسری قسط

نیا زمانہ کی کہانی

پہلی قسط

کچھ ذکر حامد میرکا

6 Comments