عدنان حسین شالزئی
وزیراعظم عمران خان پی ٹی آئی اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرنے والے راہنماؤں میں سے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد دھرنے سے خطاب میں شرکاء کو یقین دلایا کہ ” پی ٹی ایم کے مطالبات کے ہمارے مطالبات ہیں ۔ منظور پشتین اور دھرنے کے شرکاء سے بھی پہلے میں نے سابقہ فاٹا میں ہونے والے فوجی آپریشنز کی مخالفت کی تھی اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں ۔ میں جس تباہی سے ملک کو بچانا چاہتا تھا ۔ افسوس ! میں اس میں ناکام ہوگیا ۔ ” اسلام آباد دھرنا ایک معا ہدے کے تحت اختتام پذیر ہوگیا ۔ جس کے تحت پی ٹی ایم کے تمام مطالبات مان لیے گئے اور مقررہ مدت تک سا وہ فاٹا سے
۔1 : لینڈ مائنز کا خاتمہ یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا
۔ 2 : گمشدہ افراد کو عدالتوں میں پیش کئے جانے یا رہا کیا جائے گا
۔ 3 : غیر ضروری فوجی چیک پوسٹس ختم کیے جائیں گے
اور 4 : چیک پوسٹس پر فوجیوں کو اپنے رویے میں مثبت تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔
ڈیڑھ سال ہونے کو ہے ۔ پی ٹی ایم کے کسی بھی مطالبے پر عمل نہیں ہوا ہے ۔ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان قبائلیوں کو ایسے بھولے ۔ جیسے داستان میں ایک بے وفا اپنے وفادار ساتھی کو بھلا دیتا ہے ۔ محترم عمران خان نے بہ طور وزیراعظم پی ٹی ایم کے مطالبات میں دیری ہونے پر معافی مانگنے کی بجائے ، پی ٹی ایم کے مطالبات پر عمل در آمد یقینی بنانے کیلئے کمیٹیاں بنانے اور پی ٹی ایم کی اخلاقی و سیاسی حمایت جاری رکھنے کی بجائے فرمایا کہ ” پی ٹی ایم کے مطالبات صحیح ہیں لیکن پی ٹی ا یم والوں کے لہجے صحیح نہیں ہیں ” ۔
یہ کہنا تھا وزیراعظم پاکستان جناب عمران نیازی کا ۔ یہی نہیں ، وزیراعظم عمران نیازی نے پی ٹی آئی کے متاثرہ خاندانوں کی داد رسی کی بجائے اور حالیہ سانحہ خڑ کمر کے شہداء کے خاندانوں اور زخمیوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے کی بہ جائے پرائے ملک امریکہ میں فرمایا کہ ” پی ٹی ایم کے مطالبات صحیح ہیں لیکن ان کا طریقہ غلط ہے اور پی ٹی ایم اب فوج پر حملے کر رہی ہے ” ۔
یہ وہی وزیراعظم عمران نیازی ہیں ۔ جس کو سب سے زیادہ ووٹ اور محبت قبائلی علاقوں سے ملی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کے مذکورہ دو بیانات کے بعد قبائلی علاقے جات کے اکثر ووٹرز اور پی ٹی آئی ٹائیگرز اپنے خالی ہاتھ مل رہے تھے اور خود سے گویا ہوئے کہ
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت
محترم وزیراعظم صاحب ! آپ وہ واحد شخص ہیں ۔ جس نے سابقہ فاٹا میں ہونے والے اندھے ، بے سمت ، غیر ضروری ، ظالمانہ ، سفاکانہ ، غیر انسانی ، غیر آئینی اور غیر قانونی فوجی آپریشنوں کی کھلم کھلا مخالفت کی ۔ حتی کہ آپ نے پاک فوج کے ہاتھوں اپنے ایک پارٹی عہدیدار کی ہلاکت کی خبر بھی سنائی ۔
کاش ! آپ پہلے والے عمران خان ہوتے ۔ جو تاحد نگاہ پھیلے اندھیروں میں روشنی دکھا رہا تھا ۔ جو مجرمانہ خاموشی اور غفلت کے عالم میں مظلوم قبائلیوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ جو ببانگِ دہل کہہ رہا تھا کہ یہ فوجی آپریشنز امریکہ کی ایماء پر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور عوام میں انتشار پیدا کرنے کیلئے ہورہے ہیں ۔ بعد میں پاک فوج کو امریکہ کے دیے ہوئے 33 ارب ڈالر کی کہانی بھی منظر عام پر آگئی ۔
کاش ! آپ پہلے والے عمران خان ہوتے ، جو ظلم کو ظلم اور ظالم کو ظالم کا کہہ کر مظلوم کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جاتا لیکن آپ وہ والے عمران خان نہیں رہے ۔ اب تو آپ وزیراعظم عمران خان ہیں اور سیاست کی پرچار گلیوں سے ناواقف اور نابلد کھلے اور صاف دل کے نڈر عمران خان اور آج کے سیاسی کھلاڑی وزیراعظم عمران خان میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
آپ سنیں یا نہ سنیں ، پی ٹی آئی والے اپنی آخری سانس اور اپنے آخری کارکن کے باقی رہنے تک اپنا اور پشتون قوم پر ہونے والے مظالم کا دکھڑا سنائیں گے ۔ وزیراعظم صاحب ! آپ ہی بتائیں ۔ لینڈز مائنز صاف کرنے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے ؟ پشتون وطن میں ہی کیوں دہشتگردی کی وارداتیں ہوتی ہیں ؟ پشتون بیلٹ کے معدنیاتی وسائل پر ریاستی ادارے کیوں قبضے جما رہے ہیں ؟
پشتون ایم ایز کو کیوں بغیر کسی جرم کے پابند سلاسل کیا ہوا ہے ؟ خڑ کمر واقعے کے ویڈیو ثبوت موجود ہونے کے باوجود شہداء کو دہشتگرد اور حملہ اور قرار دیا گیا ؟ 33 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود آج بھی سابقہ فاٹا میں جگہ جگہ کرفیو کا نفاذ کیوں کیا جاتا ہے ؟ سانحہ اے پی ایس کے مرکزی ملزم احسان اللہ احسان احسان کو شاہی مہمان کیوں بنایا گیا ہے ؟ دہشت گرد منگل باغ کا کی ایماء پر اور کس کے سہارے خیبر ضلع میں پروٹوکول کے ساتھ آزادانہ گھوم پھر رہا ہے ؟ پی ٹی آئی کے ارکان کو کیوں گرفتار کیا جارہا ہے ؟
وزیر اعظم صاحب ! چاہے ریاست پاکستان کچھ بھی کر لے ۔ پی ٹی آئی کے نڈر ،بےباک اور بہادر ساتھی اپنے آئینی ، قانونی اور انسانی مطالبات پر عمل در آمد تک دھرنا بھی دیں گے ، جلسے بھی کریں گے ، تقاریر بھی کریں گے ، وال چاکنگ بھی کریں گے ، ٹویٹر ٹرینڈز بھی چلائیں گے ، روئیں گے ، ظالم کو بھی للکاریں گے ، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کریں گے اور سوال اٹھائیں گے کہ
یہ کیسی آزادی ہے ؟
جس میں میرے جوان مرتے ہیں .
جس میں قوم کی جوان بیٹیاں بے پردہ ہوتی ہیں ۔
جس میں ہمارے گھر تباہ ہوتے ہیں ۔
♦