عدنان حسین شالیزئی
پی ٹی ایم کی مقبولیت سے خائف برسراقتدار حلقوں میں ہلچل مچی تو انہوں نے پی ٹی ایم ارکان کی گرفتاری سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا سامان کیا ۔ حالانکہ اس سے ہزار گنا بہتر ہوتا کہ اہل اقتدار پی ٹی ایم کے آئینی اور قانونی مطالبات مان لیتے ۔ لیکن نہیں ۔ عقل سلیم سے عاری پاکستانی مقتدر حلقوں کے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ جہاں انصاف کی دہائی دینے والے کو مجرم کی نظر سے اور ظلم و جبر پر مبنی نظام پر جائز تنقید کو غداری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ موجودہ حکمران ٹولہ پی ٹی ایم ارکان کی گرفتاری کے درپے ہے ۔ انہیں حق اور سچ کی پیروی کی پاداش میں جیل کی کال کوٹھڑیوں کی نذر کیا جاتا ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق ریاست نے اب تک پچاس سے زائد پی ٹی ایم ارکان گرفتار کیے ہیں ۔ ان میں کئی نوجوان آٹھ ماہ سے مسلسل ریاستی عقوبت خانوں میں ہیں ۔ پی ٹی ایم کے کئ ساتھیوں کو ، ضمانت ملنے کے باوجود مختلف حیلوں اور بہانوں سے باہر نہیں آنے دیا جاتا ہے ۔ ان پر ایف آئی آر گرفتاری کے بعد درج کی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں پیشی کے موقع پر کبھی جج حاضر نہیں ہوتا تو کبھی پولیس کی طرف سے ریکارڈ پیش نہیں کیا جاتا ہے ۔
سابقہ فاٹا ریجن میں انضمام کے باوجود اب تک ایف سی آر کے تحت گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق ڈسٹرکٹ بنوں میں مقید ابرار خان اور ندیم عسکر کو پانی تک نہیں پلایا جاتا تھا ۔ کراچی میں قید کیے گئے کئ ساتھیوں پر رینجرز کی طرف سے شدید تشدد کیا گیا ۔ جن میں سے بعض کی ذہنی اور جسمانی حالت تاحال ابتر ہے ۔ کوئٹہ کینٹ تھانے میں مقید پی ٹی ایم ارکان کو شدید سردی کے موسم میں ٹھنڈا پانی پلایا جاتا اور موسم گرما میں استعمال میں لایا جانے والا بستر فراہم کیا جاتا تھا ۔
ہری پور جیل میں مقید منتخب ایم این ایز علی وزیر اور محسن داوڑ کو قانون کے مطابق پروڈکشن آرڈر کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی ہے ۔ دونوں ایم این ایز کے ساتھ عام و خاص عوام کی ملاقات پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ حتی کہ سنیٹر عثمان کاکڑ اور ایم پی اے میر کلام وزیر کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا گیا ۔ قانونی ماہرین کے مطابق علی وزیر اور محسن داوڑ کے ساتھ پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کی طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ علی وزیر کے دس سال سے کم عمر کے تین بچے ہیں ۔ جو کئی بار اپنے والد سے ملنے گئے لیکن ان کی اپنے والد سے ملاقات کی خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ دونوں ایم این ایز صاحبان کی سماعتوں کے موقع پر ججز حاضر نہیں ہوپاتے اور رخصتی کا عظیم الشان بہانہ گھڑ لیتے ہیں ۔
کراچی سنٹرل جیل میں مولانا طاہر اور عالم زیب محسود بھی حق کی آواز بلند کرنے کے باعث قید تنہائی بھگت رہے ہیں ۔ دونوں پر عام ملاقات کی پابندی عائد ہے ۔ ان کے کیسز بھی غیر ضروری طوالت کے ریکارڈ بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں عارف وزیر اپنے کئ ساتھیوں کے ساتھ پچھلے ایک ماہ سے مقید ہیں ۔ ضلع مردان میں ستر سالہ پی ٹی ایم رکن کو گرفتار کیا گیا ہے تو وہیں پشاور میں عبدالحئ پشتین کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ جو کہ پیشے کے لحاظ سے ماہر نفسیات ہیں ۔ ضلع قلعہ عبداللہ سے ساٹھ سالہ بوڑھے ملا بہرام کو سچ بولنے کی پاداش میں جیل جانا پڑا ہے ۔ ان سے بھی لوگ ملاقات نہیں کر سکتے ہیں ۔
چمن سے نوجوان قاسم اچکزئی کو بھی پولیس نے اپنا مہمان بنایا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ پشین سے شفیع ترین کو گرفتار کر کے خضدار جیل منتقل کیا گیا ہے ۔ شفیع ترین کے معصوم بچوں نے ڈی سی پشین کے دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا ۔ اسی طرح ایک نام شاہ فیصل غازی کا ہے ، جسے ضمانت مل گئ لیکن پولیس نے 3- ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا ہے ۔
الغرض ، اس وقت ریاستی مشینری کا پورا زور اور زیادہ تر توانائ مغربی اور مشرقی سرحد کی بہ جائے پی ٹی ایم ارکان گرفتار کرنے میں صرف ہورہی ہے ۔ خارجہ اور داخلہ پالیسی کا رخ متعین کرنے کی بہ جائے پی ٹی ایم مخالف بیانیے کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ ریاست کی ہی ایماء پر گرفتار پی ٹی ایم ارکان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود اور ضمانت ملنے پر بھی رہا نہیں کیا جا رہا ہے ۔
تھانوں اور جیلوں میں پی ٹی ایم کے ارکان کے ساتھ سختی برتی جاتی ہے ۔ کشمیر ، فلسطین اور ملک کے اندر چھوٹے واقعات پر واویلا مچانے والے اپنی تھوڑی توجہ پی ٹی ایم ارکان کو بھی دیں ۔ جو پاکستان میں جمہوریت کی بقاء ، آئین کی سربلندی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی مانگ کر رہے ہیں ۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر خود کو انسانیت کے عظیم مرتبے پر فائز کر دیا ہے ۔ مستقبل قریب میں پی ٹی ایم ارکان کی قربانی ضرور رنگ لائے گی ۔
♦