جمیل خان
مسلمانوں کی اکثریت نے1947 میں ہندووں کی کی جبری نقل مکانی پر یا تو خاموشی اختیار کیے رکھی یا پھر اپنی دھرتی کو خوف کے عالم میں چھوڑنے والوں کے مال و اسباب، زمین و جائیداد پر قبضے میں مصروف رہے۔ لوٹ مار کرنے والے کم تھے لیکن خاموشی بھی ایک سنگین جرم ہی تھا۔آج بھی سندھ کے اصل وارث ظلم و ستم سہہ رہے ہیں اور خوف و دہشت کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اردو زبان بولنے والے سندھیوں کی اس خطے کی روادارانہ تہذیب و ثقافت سے بے انتہا لاتعلقی اور اپنی سیاسی شناخت کو عرب کی وحشیانہ ثقافت منسلک کر لینے کی جاہلانہ فکر کی بناء پر وہ سندھ کے ایک انچ ٹکڑے کی وراثت کے حق دار نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔ لیکن سندھی زبان بولنے والے مسلمانوں کو بھی اس خطے کی وراثت کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔
سندھ کے اصل وارث وہ ہیں، جو سندھ دھرتی پر بستے تھے تو اسے دنیا کے لیے بہترین مثال بنائے رکھا۔ ٹھٹھہ، شکار پور، حیدرآباد یہاں تک کے سندھ کے ایسے شہر جن کے نام بھی آج کوئی نہیں جانتا، ماضی میں آگرہ اور دہلی کی مانند ترقی یافتہ تھے۔ حیدرآباد کالجوں کا شہر تھا، تقسیم کے بعد سندھ کو جاہل ثابت کرنے کی کوششوں کے تحت یہاں کی تاریخ کو مسخ کرنے میں سندھی بولنے والے بہت سے مسلمان دانشوروں نے اردو کمیونٹی کے نام نہاد مؤرخوں اور مصنفوں کا ساتھ دیا اور اس خطے سے غداری کے مرتکب ہوئے۔
سندھ کے اصل وارث جب سندھ میں تھے تو ان میں سے کئی کا شمار دنیا کے دولتمند ترین افراد میں ہوتا تھا اور جب انہیں خوفزدہ کر کے سندھو دھرتی سے خالی ہاتھ نکلنے پر مجبور کیا گیا تو اپنی محنت اور جفاکشی کی بنیاد پر آج ان میں سے کئی افراد دنیا کے دولتمند ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
آج سندھ اپنی تاریخ کے برعکس اگر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے تو اس میں مسلمان اور ان کے احمقانہ عقائد سراسر قصور وار ہیں، جن کے تحت غیر مسلم کافروں کو جزیہ یا قتل کا آپشن ہی دیا جاتا ہے۔ جزیہ دینے کی صورت میں بھی انہیں سر اٹھا کر عزت کے ساتھ جینے کا حق نہیں ملتا۔ جیسے کہ سندھ پر گوروں کی حکومت سے قبل ہندوؤں کو گھوڑے کو بطور سواری استعمال کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
سندھ کے اردو بولنے والی کمیونٹی تو خیر اپنی جینیاتی ساخت کی بناء پر مجبور ہے، ان لوگوں کی جہالت نے ہندوستان تقسیم کروا دیا، پہلے ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے سے انکار تھا، آج مسلمان اور اس سے بڑھ کر میزبانوں کے گھر کو تقسیم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
لیکن سندھی بولنے والے مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ اس خطے اصل وارثوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کے لیے کھڑے نہیں ہوتے؟ معذرت کے ساتھ کہیں آپ کی رگوں میں محمد بن قاسم کے سپاہیوں کا خون تو نہیں دوڑ رہا ہے؟ یا پھر آپ اپنی تاریخ سے ہی یکسر نابلد ہیں اور عرب جاہلوں سے مرعوب ہیں، اگر ایسا نہیں ہے تو ہندوؤں کے خلاف توہین کے گھناؤنے ہتھیار کے استعمال، جبراً مذہبی تبدیلی، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے خلاف ایسا کوئی احتجاجی مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جیسا کہ کراچی میں ایک سندھی نوجوان کو ڈاکو کہہ کر قتل کرنے کے خلاف کیا گیا تھا۔
عربوں سے مرعوب ہونے والوں کو ان کی تاریخ کے مطالعے کی زحمت کرنی چاہیے، تاکہ انہیں یہ معلوم ہوسکے کہ عرب کی تاریخ میں کہیں پہیہ نہیں ملے گا، وہاں پہیہ ستر برس پہلے حلال یا جائز قرار پایا تھا۔۔۔ جبکہ سندھ میں پہیہ پانچ ہزار سے زیرِ استعمال ہے۔
چند روز پہلے بھی گزارش کی تھی اور آج پھر متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ عرصے کے بعد مسلمان خصوصاً الباکستانی مسلمانوں کا نام تاریخ میں محض ایک وحشی مخلوق کے طور پر باقی رہے گا، شاید کسی ریسرچ لیبارٹری کے پنجرے میں مسلمانوں کے ایک آدھ جوڑے رکھے جائیں۔
لیکن سندھو دریا بہتا رہے گا۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ ماضی کی طرح اسے ممبئی سے جوڑ دیا جائے، تب کراچی حقیقی معنوں میں مشرق کی دلہن کا مقام حاصل کر لے، جس کا خواب نیپیئر نے دیکھا تھا۔
♦