بیرسٹر حمید باشانی
دنیا میں سب سے خطرناک جگہ کون سی ہے؟ برسوں پہلے اس سوال کا جواب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے دیا تھا۔ اس صاحب بصیرت سیاست دان اور دانشور نے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کی سب سے خطرناک ترین جگہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول ہے۔
برسوں بعد آج بھی یہ بات درست ہے۔ یہ خونی لکیر آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ البتہ اس کی خطرناکی میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ اب ایک ہیبت ناک جگہ ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہتی ہیں۔ جہاں اکثر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ جہاں آئے دن کسی نہ کسی بے گناہ کا خون ہوتا رہتا ہے۔ آئے دن کوئی غریب چرواہا، کوئی فاقہ زدہ کسان، کوئی لاچار لکڑ ہارا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کئی لوگوں کے گھروں کو گولہ باری سے نقصان پہنچتا ہے۔ اور کئی ایک کو زمین دوز بینکروں میں پناہ لینی پڑتی ہے۔
آج کل یہ لائن آف کنٹرول پھر گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔ آنے والے دنوں میں آزاد کشمیر کے کئی آزادی پسندوں، سیاسی پارٹیوں اور گروہوں نے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے اور اسے روند کر دوسری طرف جانے کا عزم اوراعلان کر کھا ہے۔ حریت پسندوں کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت سمیت عام دھارے کی سیاسی پارٹیاں، جن میں مسلم لیگ ، پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، جموں کشمیر پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی نے بھی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے اور عبور کرنےکا فیصلہ کیا تھا۔
مگروزیر اعظم پاکستان نے حالیہ دورہ مظفرآباد کے دوران ان سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی نیویارک سے واپسی تک یہ فیصلہ ملتوی کر لیں۔ اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعد اس بارے میں کوئی اجتماعی فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنا پروگرام وزیر اعظم کی اقوام متحدہ سے واپسی تک ملتوی کر دیا ہے۔ ان جماعتوں کے علاوہ لبریشن فرنٹ بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔
یہ لائن آف کنٹرول کیا ہے؟ اور اس کو لیکر اتنا شور کیوں ہے؟ لائن آف کنٹرول اس لکیر کو کہتے ہیں، جو سابق ریاست جموں کشمیر میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کہ درمیان جنگ بندی کے وقت معرض وجود میں آئی ہے۔ اس لکیر کو پہلے اور ابتدائی طور پر ” سیز فائر لائن” یعنی جنگ بندی لائن کہا جاتا تھا۔ تین جولائی1972 کے معاہدہ شملہ کے تحت سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ شملہ میں ذولفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان مذاکرات کا ایک اہم ترین اور مشکل ترین نکتہ یہ سیز فائر لائن بھی تھا۔ اس وقت سیز فائر لائن کو جیسی کہ وہ تھی جوں کا توں تسلیم کرنا آسان نہیں تھا، مگر پھر بھی بر صغیر میں امن اور نئی شروعات کی خاطر اسے تسلیم کرلیا گیا۔
شملہ معا ہدے میں لائن آف کنٹرول پر تفصیلی دفعات ڈالی گئیں۔ اس معائدے کی دفعہ چار میں لکھا گیا کہ ایک پائدار امن کے قیام کے لیے پاکستان اور بھارت نے اتفاق کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں انیس سو اکہتر کی جنگ بندی کے نتیجے میں جو لائن آف کنٹرول معرض وجود میں آئی تھی اسکا احترام کیا جائے گا، اور کوئی بھی فریق یک طرفہ طور پر اس میں کوئی رد وبدل نہیں کرےگا۔ کسی معاملے پر باہمی اختلاف اور قانونی تشریحات میں اختلاف رائے کے باوجود دونوں فریق اس لکیر کی خلاف ورزی کرنے یا طاقت کے استعمال سے اجتناب کریں گے ۔
اس تحریری معاہدے کے باوجود اس لکیر کی خلاف ورزیاں مسلسل ہوتی رہیں ہیں۔ تاریخ میں بیشتر وقت دوطرفہ گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ جہاں تک ریاست جموں کشمیر کے عوام کا تعلق ہے، تو انہوں نے اپنی دھرتی کے سینے پر تقسیم کی خونی لکیر کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ کشمیری عوام ہمیشہ اس لکیر کو روند ڈالنے کا عزم دہراتے رہے، اور گاہے اس کو روند ڈالنے کی عملی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔
اس سلسلے کی پہلی بڑی کوشش جون1958 میں ہوئی۔ جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے اس وقت کے ایک طاقت ور لیڈر چوہدری غلام عباس نے اعلان کیا کہ وہ 27جون کو جنگ بندی لائن توڑ کرمقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا یہ عمل پر امن اورہر قسم کے تشدد سے پاک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ دولاکھ مجاہدین ہیں، جو ان کے ساتھ جنگ بندی لائن پار کر یں گے۔ ان کے اس اعلان سے پاکستان اور بھارت میں کھلبلی مچ گئی۔
صدر سکندر مرزا نے نتھیاگلی کے ایک ریسٹ ہاوس میں چوہدری غلام عباس سے طویل مذاکرات کیے، اور ان پر واضح کیا کہ یہ ایک خطرناک مہم جوئی ہے، جو پاکستان اور بھارت کو جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایوب خان کی تاریخی ڈائری کے مندرجات بڑے سنسنی خیز ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ “یہ جان کر میرے پاوں تلے کی زمین نکل گئی کہ صدر مرزا نے یہ ہدایت کی ہے کہ جب تک عباس اور ان کے آدمی جنگ بدی لائن پر نہ پہنچ جائیں ان کےخلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے، اور جب وہ وہاں پہنچ جائیں تو فوج بغیر طاقت استعمال کیے ان کو گرفتار کر لے۔ میں نے اسی وقت صدر کو ٹیلی فون کر کہ اس طفلانہ فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ میں نے مطالبہ کیا کہ اگرکاروائی کرنی ہے تو پاکستان یا آزاد کشمیر کے سول حکام کے ذریعے کی جائے۔ اس پر کابینہ کا اجلاس ہوا، اور میری شفارسات کو منظور کر لیا گیا۔ اسی دن کراچی سے اس فیصلے کا اعلان کیا گیا کہ حکومت پاکستان جنگ بندی لائن کو توڑنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گی کیونکہ اس طرح تنازعہ کشمیر کے پر امن تصفیہ میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی” ۔
حکومت پاکستان کے اس اعلان کے ساتھ ہی اس وقت کے آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم نے بیان جاری کیا کہ چوہدری غلام عباس کے اعلان کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں، اور جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گِی۔ اس سلسلے میں بیانات کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اکتوبر میں ایوب خان نے مارشل لگا دیا اور جنگ بندی کی کہانی وہی رک گئی۔ جنگ بندی لائن بعد میں کنٹرول لائِن بن گئی، اور آزاد کشمیر کے آزادی پسند رہنماوں کی طرف سے اس لائن کو پار کرنی کی بار بار کوشیش ہوتی رہیں۔ ان میں تین بڑی اور قابل ذکر کوششیں تھیں، جو نوے کی دھائی میں آزادی پسند رہنماوں نے کیں۔
لائن آف کنٹرول کے باب میں آج بھی پاکستان کی پالیسی تقریبا وہی ہے، جو ایوب خان کے دور میں تھی۔ مگر آج کے حالات میں یہ خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو پار کرنے کی کسی کوشش کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے مسلح دو ممالک کے درمیان کسی جنگ کا خطرہ ایک خوفناک بات ہے ، جو پوری دنیا میں خوف و تشویش کا باعث ہے۔
پاکستان کے مقتدر حلقوں کا موقف ہے کہ جنگ بندی لائن کی کسی قسم کی انفرادی یا اجتماعی خلاف ورزی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے، اور ایسی کوئی جنگ بلاخر جوہری جنگ پر منتج ہو سکتی ہے، جس سے برصغیر اور شاید اس سے باہر بھی دور تک نا قابل تصور تباہی پھیل سکتی ہے۔ اور اگر جنگ نہ بھی ہو تو بھارت کنٹرول لائن پار کرنے کی کسی طرح کی کوشش کو کشمیر میں مداخلت اور دراندوزی قرار دے کر ان کوششوں کو کمزور کر سکتا ہے، جو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطع پر اجاگر کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
مگر دوسری طرف تقسیم کی اس خونی لکیر کے دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیریوں کو جذبات میں بہت اشتعال ہے۔ کشمیر میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد کنٹرول لائن کو روندنے کی خواہش میں اضافہ ہوا ہے، اور کچھ جگہوں پر اس طرح کی انفرادی کوششیں بھی ہوئی ہیں، جس سے کچھ لوگ شہید بھی ہوئے ہیں۔ اس خطرناک خونی لکیر پر مزید لہو بہنے سے روکنے کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔
♦