شعیب عادل
مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی ویڈیوز دیکھ کر مجھے آج سے سولہ یا سترہ سال پہلے کا منظر یاد آگیا ہے ۔ اس وقت جنرل مشرف کا روشن خیالی کا دور تھا۔ اور بنیاد پرستی کے مقابلے میں روشن خیالی کو فروغ دینا شروع کردیا گیا تھا۔ نائن الیون کا واقعہ ہو چکا تھا اور طالبان کے خلاف کاروائیاں بھی زور و شور سے جاری تھیں۔ جنرل مشرف نے میڈیا میں اپنی کتوں کے ساتھ اتاری گئی یاد گار تصویر بھی شئیر کی تھی اور اس کے ساتھ سند کے طور پر محمد علی جناح کی بھی کتوں کے ساتھ بنائی گئی تصویر شئیر ہوئی۔
پاکستان کا روشن خیال طبقہ عمر اصغر خان کی قیادت میں جنرل صاحب کی روشن خیال کے ساتھ تھا اور شاید اس وقت حارث خلیق جو آج ہیومن رائٹس کمیشن کے چئیر پرسن ہیں عمر اصغر خان کے معاون تھے اور ایک نئی لیفٹ کی پارٹی ، عوامی پارٹی کے نام سے بنانے میں بھی پیش پیش تھے۔کچھ یار لوگ جنرل مشرف کو پاکستان کا اتا ترک قرار دینا شرو ع ہوگئے تھے۔
دوسری جانب بنیاد پرست جرنیلوں کو جنرل مشرف کی روشن خیالی کھٹکنا شروع ہو گئی تھی۔ انھوں نے پاکستانی اتاترک سے نجات حاصل کرنے کے روایتی حربوں کے استعمال کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
اس وقت شاید مولانا ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری ابھی اتنے مقبول نہیں تھے لہذا چکوال کے ایک چھوٹے سے قصبے منارہ سے انہی کے مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک مولانا بڑی دھوم دھام سے اٹھے ان کا نام اکرم اعوان تھا ۔ ان کا نعرہ تھا ۔۔۔رب کی دھرتی رب کا نظام۔۔۔ مولانا اکرم اعوان مولانااکرم اعوان ۔۔۔ریل گاڑی یا بس کے ذریعے سفر کرنے والوں کو دیواروں پر لکھے مردانہ کمزوری کے نعروں کے ساتھ اکرم اعوان کا نعرہ بھی پڑھنے کو ملتا تھا۔
کوئی 2002 کا واقعہ ہے۔ جنرل مشرف کی روشن خیالی کے خلاف مولانا اکرم اعوان نے جنرل مشرف کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا اور کہا کہ جنرل صاحب اگر آپ نے ملک میں اسلام نافذ نہ کیا تو میرے تین لاکھ مجاہدین اسلام آباد کا گھیراؤ کریں گے۔ گو ان کے پاس بندوق تو نہیں ہے اگر کسی نے انہیں روکنے کے لیے گولی چلائی تو یہ تین لاکھ افراد اسلام کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسی دوران منارہ میں ، مولانا کے مجاہدین نے پریڈ کرنی شروع کردی تھی ویسے ہی جیسے آج پشاور میں مولانا کے ڈانڈا بردار کارکن پریڈ کر رہے ہیں۔ اخبارات میں کہانیاں شروع ہوگئیں کوئی کہے کہ ان کے ساتھ ریٹائرڈ فوجی ہیں کوئی کہے کہ حاضر سروس فوجی بھی مولانا کے ساتھ ہیں۔ پاکستانی قوم کچھ ماہ کے لیے اپنے مسائل بھول کر ایک نیا ڈرامہ د یکھنے میں مصروف ہوگئی۔
اس وقت سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا۔ نجی نیوز چینل پر کچھ خبریں آتی تھیں لیکن اخبارات پڑھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اب اسلامی انقلاب قریب ہی ہے۔
مولانا کی اسلام آباد کے گھیراؤ کی دھمکی سے جنرل مشرف کی حکومت کچھ پریشان ہوئی اور جنرل مشرف نے اپنے مذہبی مشیر محمود قاضی اور شاید وزیر داخلہ کو مولانا سے مذکرات کے لیے بھیجا۔ قاضی صاحب مولانا سے مذاکرات کرنے منارہ پہنچے اور جمعے کی نماز اکرم اعوان کی امامت میں ادا کی مولانا نے کہا کہ شریعت نافذ کی جائے اور سود ی نظام کے فوری خاتمے کااعلان کیا جائے۔
اسی دوران ایاز امیر نے ایک کالم لکھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت اتنی پریشان کیوں ہے؟وزیر داخلہ اور انتظامیہ ان سے کیوں مذاکرات کررہی ہے یہ تو مقامی ایس ایچ اوکا کیس ہے وہ ڈیل کر سکتا ہے۔
♥