توہین رسالت کا الزام-3

محمد شعیب عادل

میں نے کم ازکم ڈیڑھ دو ماہ کے لیے لاہور شہر چھوڑ دیا۔ میری فیملی بھی ایک عزیز کے گھر چلی گئی کہ کہیں معاویہ اینڈ کمپنی میرے گھر کے باہر کوئی ہنگامہ نہ کریں۔ میں تو صبح سویرے دوسرے شہر روانہ ہو گیا تھا مگر اگلے روز صبح حسن معاویہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ تھانے آیا۔ میرا پوچھنے لگا کہ اسے کہاں بند کیا ہوا ہے۔ پولیس نے کہا کہ وہ اوپر کمرے میں ہے ۔ آپ کی درخواست ہم محکمہ اوقاف کو بھجوا رہے ہیں اور اس کے جواب آنے تک کیس درج نہیں ہوگا۔

خیر اس نے دن میں دو تین چکر لگائے اور سپاہیوں سے میرے بارے میں پوچھتا۔ اسے اتنا اندازہ ہوگیا کہ پولیس نے مجھے چھوڑ دیا ہے لہذا اگلے دن وہ لوئر کورٹ چلا گیا اور جج کو درخواست دی کہ تھانہ ریس کورس کے ڈی ایس پی /ایس ایچ او توہین مذہب کے مرتکب کے خلاف 295 سی کاپرچہ درج نہیں کر رہے لہذا عدالت انہیں حکم جاری کرے۔

عدالت نے دو تین دن کی تاریخ دی اور ایس ایچ او کو وضاحت کے لیے بلایا ایس ایچ او نے کہا کہ ہم نے محکمہ اوقاف کو درخواست بھیجی ہے انتظار کر رہے ہیں۔ محکمہ اوقاف کے بورڈ ممبرز میں انتہا پسند علما بھی ہیں اور ماڈریٹ بھی۔ لہذامیرے عزیزوں نے کہا پتہ نہیں محکمہ اوقاف کیا جواب دیتا ہے کوشش کرتے ہیں کہ بااثر علما سے سفارش کروا کر حسن معاویہ کو درخواست واپس لینے کا کہتے ہیں۔

میرے عزیز جامعہ اشرفیہ لاہور میں علما سے ملے اور سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ ہمارا بچہ ہے غلطی ہوگئی ہے وہ معافی مانگ رہا لہذا آپ قاری احمدکو کہیں کہ وہ درخواست واپس لے۔ یاد رہے کہ حسن معاویہ نے پولیس کو جو درخواست دی تو وہ قاری احمد کی جانب سے لکھی گئی تھی جو کہ بلال گنج لاہور کی کسی مسجد کا امام تھا اور ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی چلاتا تھا۔

علما نے قاری احمد سے رابطہ کیا تو وہ فون نہ اٹھاتا تھا۔ میرے عزیز ان علما کا پیغام لے کر قاری احمد کی مسجد واقع بلال گنج گئے لیکن وہ نہ ملا۔مسجد سے متصل ہی گھر تھا اس کا دروازہ کٹھکٹاتے رہے کوئی نہ نکلا۔ اگلے دن دوبارہ گئے تو اندر سے خاتون نے جواب دیا کہ قاری صاحب تبلیغ پر گئے ہوئے ہیں۔ وہیں پر ایک شخص ملا جو میرے عزیزوں کو دروازہ کٹھکھٹاتے دیکھتا تھا اس نے کہا کہ قاری صاحب سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں آپ اس کے سرپرست ، خواجہ محمد شریف، ریٹائرڈ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملیں اور معاملہ حل کروائیں۔

خیر خواجہ شریف سے رابطہ کیا وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے بورڈ آف گونرز کے رکن بھی ہیں انھوں نے کہا کہ میں گورنمنٹ کالج بیٹھا ہوں وہاں آجائیں۔ میرے عزیز انہیں ملے اور معاملہ بتایا تو خواجہ صاحب کہنے لگے کہ قاری احمد انتہائی اوکھا بندہ ہے میرے کنٹرول میں بھی نہیں میں نے اسے کئی دفعہ کہا کہ ایسی حرکتیں نہ کرو مگر وہ باز نہیں آتا۔ میرے عزیزوں نے منت ترلہ کیا مگر وہ سمجھ گئے کہ یہ کوشش بھی فضول ہے۔

میرے عزیزوں نےکہا کہ صورتحال غیر یقینی ہے ۔ پتہ نہیں کیا فیصلہ ہو، توہین رسالت والی تلوار تمھارے سر پر لٹکتی رہے گی۔ میرے ایک قریبی عزیز جن کا بطور صحافی کالعدم مذہبی جماعتوں سے بھی رابطہ تھا انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ یہ بہت بدمعاش لوگ ہیں انھیں پتہ چل چکا ہے کہ بندہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے لہذا تم کسی بھی وقت اندھی گولی کا نشانہ بن سکتے ہو بہتر یہی ہے کہ تم ملک چھوڑ نے کی تیاری کرو۔

نیا زمانہ کے بیرون ملک ، یورپ امریکہ اور کینیڈا میں کافی زیادہ خریدار تھے۔ میں نے ان سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ مگر ویزا کا حصول مشکل تھا۔ دو یورپین ایمبسیوں نے ویزا ریجکٹ کر دیا۔ پھر ایک سیانے نے کہا کہ ویزا اپلائی کرنے سے پہلے کسی کنسلٹنٹ سے رابطہ کرو۔ اس سے رابطہ کیا اس نے کہا کہ اگر بیرون ملک تمھارا کوئی دوست مخصوص سپانسر لیٹر بھیج دے تو تمھارا ویزا لگ سکتا ہے ۔امریکہ میں نیا زمانہ کے ایک پرانے خریدار تھے انھوں نے مجھے سپانسر لیٹر بھیجا مجھے ویزا ملا اور امریکہ کوچ کر گیا جہاں میں نے سیاسی پناہ کی درخواست دائر کی جو منظور ہو گئی اور پھر میری فیملی جو کہ میرے پیچھے خوف کا شکار تھی اور مکان بدل رہی تھی بھی میرے پاس پہنچ گئی۔

میں تقریباً چارماہ انڈر گراؤنڈ رہا۔ چند قریبی دوستوں کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میگزین بند ہوگیا، ساتھ ہی کتابوں کی دکان بھی بندہو گئی۔ آمدنی کا ذریعہ بھی بند ہو گیا۔ کوئی کہے کہ سارے باہر جانے کے بہانے ہیں کوئی کہے کوئی بہت بڑا ڈرامہ کیا ہے۔

میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا میرے بیوی بچے انتہائی پریشان تھے۔ میرے خاندان میں تمام افراد انتہائی مذہبی ذہینت کے حامل ہیں۔ خاندان کے مرد حضرات نے تو مجھ سے کوئی بات نہ کی لیکن خواتین میری بیگم سے پوچھتیں کہ شعیب نے توہین رسالت کیوں کی تھی؟ سنا ہے وہ رسالے میں بڑی غلط قسم کی باتیں لکھتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ میری بیگم کہتی کہ یہ سب پراپیگنڈہ ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔

پولیس نے کہا تھا کہ اخبارات میں کوئی رپورٹنگ نہیں ہو چاہیے وگرنہ ہمارے لیے مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ چند انگریزی اخبارات میں میرے دوستوں نے کچھ رپورٹنگ کی تھی، جن میں ڈان اور ایکسپریس ٹریبیون تھا۔انگریزی میں ہونے کی وجہ سے یہ کسی کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔

بی بی سی سے محمد حنیف نے مجھ سے رابطہ کیا اور انھوں نے میری سٹوری سنی میں نے انہیں درخواست کی اگر اردو کی بجائے انگریزی میں لکھیں تو بہتر ہے ۔ بہرحال انھوں نے مہربانی کی اور انگریزی میں ان کامضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کی بھی میں نے کوئی تشہیر نہ کی اگر کسی کو دلچسبی ہو تو وہ اس لنک پر مضمون پڑسکتا ہے۔

https://www.bbc.com/news/magazine-28439518

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان سے بھی یہی درخواست کی کہ میرا کیس نہ ہی رپورٹ کریں تو بہتر ہے ۔اس کے علاوہ سنگاپور میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے مجھ سے رابطہ کیا اور میرا کیس سنا۔

ختم شد

چوتھی قسط

توہین رسالت کا الزام۔2

تیسری قسط

توہین رسالت کا الزام

دوسری قسط

نیا زمانہ کی کہانی

پہلی قسط

کچھ ذکر حامد میرکا

One Comment