تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان جب تک جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
افغان طالبان کا وفد ملا عبدال غنی برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں موجود ہے۔ طالبان کی قیادت نے پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے دوحہ میں طالبان سیاسی کمیشن کو پاکستان دورے کی دعوت دی ہے۔ اس دورے میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک مرتبہ پھر آغاز کیے جانے پر غور کیا جائے گا ۔ دورے کے دوران تعطل کے شکار سیاسی عمل کا دوبارہ سے آغاز کرنے کے امکانات پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کےسابق رکن افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”جو سیاسی مبصرین صورتحال کو دیکھ رہے تھے ان کا خیال تھا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے کیوں کہ حل مذاکرات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘ افراسیاب خٹک نے کہا کہ اب بات چیت میں افغان ریاست کو شامل ہونا چاہیے، یہ مذاکرات منصفانہ ہونے چاہیں اور افغان حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کی طالبان کی ضد کو ختم ہونا چاہیے کیوں کہ ریاست اصل فریق ہے اس کے بغیر بات نہیں بن سکتی۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کا وفد پاکستانی قیادت کو امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل کے خاتمے کی ممکنہ وجوہات سے آگاہ کرے گا۔ مصنف اور تجزیہ کار زاہد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے دروازے بند نہیں کیے تھے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا زلمے خلیل زاد نئے مینڈیٹ کے ساتھ آرہے ہیں ؟ اور کیا وہیں سے مذاکراتی عمل شروع ہوگا جہاں سے یہ سلسلہ ختم ہوا تھا ؟
افراسیاب خٹک کہتے ہیں بغاوت کی لڑائی مذاکرات سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں اب انتخابات کے بعد حکومت افغان عوام کے ووٹ سے بنے گی، وہ اہم فریق ہے لہٰذا اگر امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے توبین الافغان مذاکرات اور امریکا اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی مذاکراتی عمل کا اہم نقطہ ہونا چاہیے۔
افراسیاب خٹک نے مزید کہا، ”طالبان کو تنگ نظری سے نکلنے کی ضرورت ہوگی اور پاکستان میں جو طالبان کے سر پرست ہیں ان کو بھی طالبان کو بتانا چاہیے کہ جنگ اور تشدد مسئلے کا حل نہیں ہے، طالبان کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔‘‘ افراسیاب خٹک کی رائے میں طالبان جانتے ہیں کہ افغان عوام جنگ سے خوش نہیں ہیں اور اگر جنگ بند ہوگئی تو دوبارہ جنگ شروع کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لہذا وہ جنگ کی پالیسی کو چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن مذاکرات کامیاب تب ہی ہوں گے جب جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ طالبان افغانستان میں جاری جمہوری عمل کا حصہ بننے کی بجائے افغانستان میں شریعت پر مبنی حکومت بنانا چاہتے ہیں جسے وہ امارات اسلامی کے نام سے پکارتے ہیں ۔افغان حکومت نے بھی کسی ایسے امن معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا جس میں طالبان ، اپنی حکومت کے لیے امارات اسلامی کا لفظ استعمال کریں گے۔
یاد رہے کہ مذاکرا ت طالبان اور امریکہ کے درمیان ہو رہے تھے جس کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے بتدریج اپنی فوجیں نکالنا تھیں جبکہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کرنا تھا۔ اور اس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تھے۔ مگر مذاکرات کے دوران ہی طالبان کے حملوں میں شدت پیدا ہوگئی اور جب تازہ حملے میں ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا تو امریکہ نے ان مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
تاہم گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ افغان طالبان کو مذاکراتی میز پر لانے کی کوشش کریں گے اور افغان طالبان کو افغان حکومت سے بات کرنے پر بھی آمادہ کریں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں مذاکراتی عمل ختم ہونے کا علم صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے ہوا تھااور اچھا ہوتا اگر امریکا پاکستان سے اس بارے میں مشاورت کر لیتا۔
DW/Web desk
♦