رزاق شاہد
سرکاری وفد میں شرکت سے پرہیز، حکومتی اداروں سے کتاب چھپوانے سے گریز
درباری انعامات سے نفرت
کتابوں کی رونمائی سے پہلو تہی
عجیب انسان ہے کام سے لگن نمود سے گھبراہٹ۔
ابھی مَسیں نہیں بھیگی تھیں کہ شاعری اور سیاست نے اپنی طرف ایسے کھینچا کہ سکول جاتے جاتے اے این پی کے جلسوں میں حاضری جا دیتا۔
سوچنا مادری، لکھنا سرکاری زبان میں۔۔۔
معصوم حسرتوں کے سامنے جب اردو ہانپنے لگی تو نثر کی طرف بڑھے۔۔۔۔ پھر نثر نے انہیں اپنی بانہوں میں ایسے سمیٹا کہ پلٹ کر کسی دوسری صنف کی طرف نہ دیکھا۔۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی نے پوری دنیا کو انقلاب و بغاوت کی لڑی میں پرو دیا تو یہ بھی اسی تسبیح کے ایک روشن دانے کی طرح اپنے جلوے دکھانے لگے۔
میدانِ سیاست میں کبھی بزنجو کے جلسے میں تو کبھی جی ایم سید کی محفل میں موجود ہوتے۔
زبان و ادب کی باری آتی تو کبھی نوم چومسکی تو کبھی کرسٹوفر شیکل سے لسانیات پر بحث کر رہے ہوتے۔
سُر شناسی کا شوق اٹھا تو اپنے وقت کے کلاسیک اور لوک گائیکوں کی محافل میں انہی سے کچھ سیکھ رہے ہوتے، کچھ سِکھا رہے ہوتے۔
کچھ سمجھ، کچھ سمجھا رہے ہوتے۔
شیخ ایاز سے وکالت کی شاگردی حاصل کرنے اور ادبی میدان میں صدارتی ایوارڈ پانے والے اسماعیل اہمدانی کی لائیبریری کے سبب شوقِ مطالعہ مقامِ عشق تک لے گیا۔
ابھی سستانے نہ پائے تھے کہ رفیقِ دیرینہ تاج لنگاہ نے اپنی پاکستان سرائیکی پارٹی میں شامل کیا۔
نائب صدر اور پھر جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
اس کے بعد میجر اسحاق، قسور گردیزی مولانا بھاشانی، ولی خان، اجمل خٹک اور رسول بخش پلیجو جیسے بڑے ناموں سے سیاسی روابط کا سلسلہ چل نکلا۔
یہی سیاسی شعور انہیں سرائیکی زبان و ادب کی طرف لے آیا۔
افسانے لکھے، ڈرامے لکھے جو ریڈیو ملتان سے نشر بھی ہوئے۔۔۔
پہلے پیدل، پھر سائیکل پر معلمی کی خاطر جانے والا دِلو رائے کی ٹھیڑ کا یہ ہمسایہ تن آسان کیسے ہو سکتا تھا۔
اپنے لئے کٹھن اور مشکل راستہ چنا سرائیکی تنقید و تحقیق کے میدان کا یہ شہسوار آج فخر سے سر بلند کئے نازاں ہے کہ میں نے اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے اب آنے والوں کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
معلمی کے ساتھ ساتھ ریاستی بیانئیے کو للکارنے والے سیاسی سفر کی دشواریوں کو جھیلنا اور وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں ۔۔
ہمارے دیش میں آمریت کی اولادیں ہمیشہ سوچتے دماغوں پر ضرب لگاتی آئی ہیں۔ دورِ ابتلا میں قاضی راضی اور رحیم ضیائی کے فرضی ناموں سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا
پوچھا
ریاستی زندانوں، اور قہر ڈھاتے تھانوں سے۔۔۔ کیسے بچ نکلتے تھے؟
کہنے لگے انقلابی اور باغی اتنے سادہ بھی نہیں ہوتے۔۔۔
خوشبوؤں کو قید کر سکا ہے کوئی۔ کبھی بھیس بدلے ،کبھی نام بدلا کبھی مکاں بدلا۔۔
البتہ رستہ نہیں بدلا، نظریہ نہیں چھوڑا ۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرخرو ہیں۔
کہنے لگے یہ سقراط بے وقوف تھا۔ جب اس کے شاگرد جیل سے نکالنے کا پروگرام بنا چکے تھے تو چلے جاتے کسی دوسرے مقام پر اپنا کام جاری رکھتے۔ جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔ انقلابی کو حتی الوسع اسے بچانا چاہئیے۔ بھاگ کر جلادوں کے آگے سر رکھنے کی جلدی نہیں کرنی چاہیئے بھٹوز کی طرح۔
کیا بڑے بھٹو کو، آمریت سے مصلحت کر لیتے؟
بالکل کر لیتے۔۔۔ وقت آنے پر پھر اپنا کام کرتے۔۔۔ جلدی میں پورا خاندان مروا بیٹھے۔
ارسطو کی “بوطیقا” اور ماؤ کی “فن و ادب کے مسائل” کو ترجمے کرنے کا موقع بھی ملا۔
بتانے لگے اکبر بگٹی کے مطالعے، میجر اسحاق کی جدوجہد اور پلیجو صاحب کا سیاست و ادب میں متحرک کردار بہت متاثر کن ہے میرے لئے۔
ایک دن ان کی لائبریری میں بیٹھے تھے۔
بتانے لگے یہ سیکشن موسیقی کی کتب پر مشتمل ہے۔
یہ پورا حصہ مارکس کا ہے۔
یہ فریدیات کی الماریاں ہیں۔
یہ انگریزی زبان و ادب کا۔
یہ یورپی فلسفہ اور یہ سارا ذخیرہ آرٹ پر مشتمل ہے۔
اچانک آواز دی
جینی!۔
مہمانوں کے لئے کجھور لاؤ ۔۔
چہرے کے سوال اور حیراں آنکھیں پڑھنے کا ہنر تو کوئی ان سے سیکھے
ارے بابا یہ میری نواسی ہے
جب اسے دیکھتے ہیں تو مارکس کی جینی یاد آتی ہے
یہ سرھانے رکھی بوڑھے مارکس کی تصویر،۔
یہ سب سے اوپر نگہبان مارکس کی مورت۔۔۔ اس لئے ہیں کہ ہے مارکس اور جینی کی یادیں تھکنے نہیں دیتی،۔
جھکنے نہیں دیتی۔،
بِکنے نہیں دیتی انہیں دیکھ کر مایوسی بھاگ جاتی ہے، قنوطیت دروازے سے باہر رہتی ہے جرآت و ہمت کی علامت ہے مارکس۔
جب سانس اکھڑنے لگتی ہے، جب دم گھٹنے لگتا ہے تو یہی چہرہ دوبارہ جی اٹھنے کا حکم دیتا ہے۔
ان کی لکھی جانی والی کتابوں کا ذکر ہو جائے۔
۔1۔ تلاوڑے
۔2۔ نتارے
۔3۔ لیکھے
۔4۔ سرائیکی ادب وچ معنی دا پندھ
۔5۔ سرائیکی قاعدہ
۔6۔ لسانی مضامین
۔7۔ سرائیکی زبان اوندا رسم الخط تے آوازوں
۔8۔ سچل سرمست
۔9۔ بیدل سندھی
۔10۔ حمل لغاری
۔11۔ سرائیکی قومی سوال
۔12۔ سرائیکی لوک موسیقی
۔13۔ سرائیکی اسلوبیاتی تنقید
۔14۔ سرائیکی زبان اتے لسانیات
۔15۔ مارکسی نقطہ نظر تے ساڈا ادب۔
اخبارات اور رسائل میں لکھے جانے والے تحقیقی مضامین کے سینکڑوں صفحات اس کے علاوہ ہیں۔
فعال سیاست کے ساتھ ساتھ ادبی میدان میں کام جاری رہا۔
سرائیکی تحقیق و تنقید کے لئے کبھی مہر عبدالحق تو کبھی دلشاد کلانچوی سے سرائیکی رسم الخط کے اصولوں پر بحث کر رہے ہوتے،۔
بڑے ناز سے بتا رہے تھے کہ سرائیکی رسم الخط کی کمیٹی میں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا ان کے ساتھ کیفی جام پوری، اسماعیل احمدانی، نور احمد فریدی، میر حسان حیدری، ظامی بہاولپوری بھی شامل تھے۔
اپنے گاؤں میں سرائیکی پبلیکیشنز کی بنیاد رکھی اور رسالہ بھی جاری کیا۔ اس کے علاوہ نور احمد فریدی کی دیوانِ فرید مرتب کرنے میں راہنمائی کی اس کے علاوہ ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کے ساتھ ساتھ ترکی کے ادیب پولٹ کایا، تامل زبان کے لوگا ناتھن، اور امریکی ماہر لسانیات ڈیوڈ ہیرسن سے بھی لسانیات پر رابطے میں رہے۔
نیدرلینڈز کے ادیبوں نے “قندھاری ملتانی” زبان پر تحقیق کے لیے ان سے خصوصی طور پر رابطہ کیا۔
ماما عبداللہ جمالدینی سے خصوصی تعلق کی وجہ سے مشہور بلوچی نظم “شہ مرید دی یاد” کا سرائیکی میں ترجمہ کیا۔
کراچی میں “پاکستانی زبان و ادب” پر ہونے والی کانفرس میں ان کے پڑھے جانے والے مقالے کو سن کر ڈاکٹر جمیل جالبی اور روسی سفیر خصوصی طور ان سے ملنے کے لئے آئے۔
خواجہ فرید اور بلھے شاہ کو ریاستی زور پر پنجابی شاعر منوانے کی ناکام کوشش کرنے والے شفقت تنویر مرزا سے ادبی مزاکرے کو کامیابی سے ایسے ہمکنار کرایا کہ اکیڈمی ادبیات پاکستان سرائیکی ادیبوں کے لئے علیحدہ خواجہ فرید ایوارڈ کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی۔
اس کے بعد ڈاکٹر انوار احمد اور ظہور احمد دھریجہ کے ساتھ مل کر زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ قائم کرایا۔
ان کا ایک اور کام قابل ذکر ہے کہ انہوں نے نظر انداز کئے جانے والے موضوعات پر خصوصی طور پر کام کیا جیسا کہ
سرائیکی ڈرامہ، ہندو شعراء کا سرائیکی کلام اورسرائیکی ہجویہ شاعری۔
بہت سے ادیب خواجہ فرید کو کافی کے ساتھ دوہڑے کا شاعر مانتے تھے۔ یہ انہی کا کمال ہے کہ انہوں اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ خواجہ فرید نے اپنی ساری زندگی کوئی دوہڑہ نہیں لکھا۔
پوچھا
آپ کی لائبریری سے فیض پانے والے چند نام
کہنے لگے ڈاکٹر انوار احمد اور پروفیسر شوکت مغل جیسے بڑے نام میری لائبریری میں تشریف لاتے رہے یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔
پھر کہنے لگے کچھ لُٹیرے کچھ ڈکیٹ بھی آتے رہے ہیں یہاں۔
کیا مطلب؟
سیکھنے اور پڑھنے جیسے مقدس نام پر میری ہزاروں کتابیں لے گئے۔۔ پھر نہیں آئے۔
میری موجودہ لائبریری تو دس فیصد بچ گئی ہے 90 فیصد تو لُوٹ لی گئی ہے۔
آپ بیتی لکھنے کا خیال نہیں آیا
میرا کام ہی میری آپ بیتی ہے۔
ایک ملاقات میں پلیجو صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ کہتے تھے کہ باغیوں اور روایت شکن لوگوں کو چاہیے کہ اپنے خاندان کو ساتھ ملا کر چلے۔
تو آپ نے!!۔
مہمانوں کو کھانا کھلانا اور لائبریری میں کتابیں سجانا۔۔۔ بیوی کے ذمے،
وقار نے فلسفہ چنا
ثروت نے وکالت و سیاست
واصفہ نے کہا۔۔ ابا۔۔ زبان و ادب میرے لئے۔
سعادت رانی نے معلمی سنبھالی
میں اب ایک ناول لکھوں گا اور اپنی سرزمین کے پھولوں میں جا بسوں گا۔
اور
زمانہ اس خوشبو کو اسلم رسول پوری کے نام سے جانتا ہے۔