پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذہبی کارڈ کا ہمیشہ ہی استعمال کیا ہے۔ حالیہ دور میں تحریک انصاف جو ریاست مدینہ کے قیام پر ووٹ لے کر آئی ہے اب اسی ریاست مدینہ کی ناکامی کے بعد ایک اور مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمن ختم نبوت کے نام پر اس ریاست کا تختہ الٹانا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بزرگ ہندوستان میں ایک سیکولر ریاست کے طور پر جدوجہد کرتے رہے ہیں مگر پاکستان میں اقتدار کے لیے موقع پرستی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
مولانا فضل الرحمن کے مجوزہ آزادی مارچ اور اس کی لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے مولانا اورجمیعت کی طرف سے مذہبی نعرے اور مذہبی سمبلز کے استعمال پر سوشل میڈیا پر بحث و تمحیص بلا توقف اور شد ومد سے جاری و ساری ہے۔
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکن مذہب کے سیاسی استعمال پر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں اور کھل کرتونہیں لیکن ڈھکے چھپے انداز میں مذہب کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں۔
اس کے برعکس عمران مخالف لابی یہ کہہ کر ان کا مذاق اڑا رہی ہے کہ ابھی کل تک ن لیگ کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور اس کے دانشور ختم نبوت کا کارڈ کھیلتے رہے ہیں اورپھرریاست مدینہ کے قیام کا وعدہ اور دعوی بھی تو مذہبی سیاست ہی کے زمرے میں آتا ہے۔لہذا تحریک انصاف اور اس کے دانشور کس منہ سے مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دراصل مذہبی سیاست اورمذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنےکی روایت پاکستان میں بہت پرانی اورمستحکم ہے۔ مذہب کو محض مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہی نہیں مین سٹریم سیاسی جماعتوں نے بھی مختلف مواقعون پر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔
تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے والوں میں بانی پاکستان محمد علی جناح کا نام سرفہرست ہے۔یہ جناح ہی تھے جنھوں نے مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ملک کی بنیاد رکھی تھی۔ایک ملک اگر بنا ہی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ہے تو اس کو سیکولر نظم سیاست و معاشرت میں ڈھالنا ناممکن نہیں مشکل ضرور تھا اور ہے۔
جناح کے بعد پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی نوزائیدہ ملک میں کوئی سیاسی حیثیت اور اہمیت نہیں تھی اس لئے انھوں نے مذہبی سیاست کو اپنا پرچم بنالیا اور مذہب کی بنیاد پر اپنے مخالفین کو مطعون کرنا شروع کردیا۔ اپنی اس قبیح سیاسی مہم میں انھیں دولتانہ جیسے پنجابی جاگیردار کی حمایت حاصل تھی جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور خود کو سوشلسٹ کہلانا پسند کرتے تھے۔
دولتانہ نے ناظم الدین حکومت کا تیا پانچہ کرنے کے لئے ختم نبوت کا کارڈ استعمال کیا تھا۔ مذہب کے استعمال کا یہ سلسلہ جو ایک مرتبہ چل نکلا تو پھر یہ رکا کبھی نہیں اس نے نئی نئی شکلیں اور صورتیں اختیار کیں لیکن اس سے نجات کی صورت کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ ملک غلام محمد جیسا آمر ہو یا جنرل ایوب جیسا پہلا فوجی آمر پاکستان کو کسی نہ کسی طرح کا اسلامی ملک بنانے پر یقین رکھتے تھے۔
جنرل یحییٰ خان اوراس کا وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نظریہ پاکستان کے تحفظ کے نام پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کرتے رہے۔ بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کو مساوات محمدی کا نام دے دیا تھا اوراحمدیوں کو اقلیت قرار دے کر خود کو مجاہد اسلام ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
تحریک نظام مصطفے مذہب کے سیاسی استعمال کی تجسیم تھی۔ اس تحریک میں تو مشرقی پاکستان میں شکست کھانے والے جنرل نیازی بھی سر پر پگڑی باندھ کر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔مذہبی سیاست ایک ایسی گنگا ہے جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ جس سیاسی جماعت اور شخصیت کو موقع ملتا ہے وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے سے نہیں ذرا نہیں چوکتی اور انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی یہ سب کر گذرتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا تو حلقہ نیابت ہی مذہبی ہے ان سے کیسا گلہ یہ گلہ تو تحریک انصاف سے بنتا ہے جو خود کو جدید اور پڑھی لکھے طبقات اور افراد کا ترجم ان کہتی اور سمجھتی ہے لیکن جب بھی موقع ملتا ہے مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے۔
لیاقت علی