یہ تحریر لکھتے وقت ہمیں انگریزی کی یہ ضرب المثل یاد آئی کہ، If Wishes were horses, ۔ اس کاجو ترجمہ ہمارے دل کو لگا ، ہم نے اسے عنوان چن لیا۔ ویسے اور تراجم بھی ہو سکتے ہوں، مثئلاً، اگر خواہشیں گھوڑے ہوتیں تو بھکاری بھی سواری کرتے۔۔ اس سب کا پس منظر عمران خان کی اقوام متحدہ کی وہ تقریر تھی جس کا عوام میں اور بالخصوص تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا سواروں میں بڑا چرچا ہے۔ اور سب سے زیادہ جشن لوگوں نے یہ منایا کہ ایک اہم سفارتی اجلاس میں جس میں دنیا کی حمایت حاصل کی جاتی ہے، عمران خان نے انتہائی گھٹیا عوامی زبان استعمال کرکے بھارت کے وزیرِ اعظم مودی کو مغلظات کا نشانہ بنایا ۔
ان مغلظات کا دنیا کے سفارتی حلقوں پر تو شاید کوئی اثر نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہوا کہ انہوں )خان صاحب( نے پاکستان لوٹتے ہی اقوامِ متحدہ میں اپنی سفیر ملیحہ لودھی کو ٹھکانے لگا دیا، اور ان صاحب کو سفیر بنا دیا جو اب سے پہلے اقوامِ متحدہ میں جنرل مشرف کے نمائندے تھے۔ وہی سفیر کہ جنہوں نے بے نظیر کا مقدمہ اقوامِ متحدہ میں اٹھانے کی مخالفت کی تھی۔ اور جن پر اسی سفارت کے دران ملازمین پر تشدد یا زیادتی کا الزام لگا تھا، جو سفارتی استثنیٰ کے نتیجہ میں دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اب شاید آپ سمجھیں کہ خان صاحب کا آقا کون ہے۔
اپنی تقریر میں خانِ خاناں نے پاکستان میں ایک سال میں ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ کردیا۔ نہ دلیل نہ ثبوت، بس عوام مان لیں۔ اور دنیا کے سفیراور ماحولیاتی مبصر تو گویا، احمق اور بے وقوف ہیں۔ بقول شاعر ، خاں کہیں اور سنا کرے کوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ابھی نو ارب پیڑ اور بھی لگایئں گے۔ اور پاکستان کا موسم اور ماحول بہترین ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ پیڑ لگانے سے ماحول بہتر ہو لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پاکستان میں ایک ہزار ارب درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیئے کتنے جنم چاہیئں ، یہ تو خان اور ان کے پانی سے گاڑی چلانے والے جیسے مشیر ہی بتایئں گے، جو شاید ماہر نوسر باز ہیں۔
اربوں کھربوں پیڑوں کا سن کر ہمیں ایک مقبول فلمی گانا یاد آیا، جس کے بول کچھ یوں ہیں کہ ’ کیوں نہ روٹیو ں کا پیڑہم لگالیں ، آم توڑیں، روٹی توڑیں ، روٹی آم کھا لیں۔ ‘ ایک مفلوک الحال قوم جو ایٹم بنا بناکر عرصہ سے گھاس کھارہی ہو ، اس کے لیے روٹی آم کھانے کی خواہش ہی دل خوش کر سکتی ہے۔ پھر قوم پانی بلو کر گھی بنانے کا خواب بھی تو دیکھ سکتی ہے۔ اگر خوابوں ہی میں جیتے رہنا ہو تو چلو روٹی، آم، پانی اور گھی ہی صحیح۔
اس پر ہمیں اردو کے اہم ترین نظم نگار، نظیر اکبر آبادی کی، روٹیوں پر ایک ضرب المثل نظم یاد آگئی۔ جو ایک مفلوک حال قوم کی نمائندگی ہی ہے۔ ملاحظہ ہو، ’’ پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے، یہ مہرو ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیئے، وہ سن کے بولا بابا ،خدا تجھ کو خیر دے، ہم نہ تو چاند سمجھےں ، نہ سورج ہیں جانتے، ۔۔۔ بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں۔۔‘‘، پھر کہا کہ۔۔۔ـروٹی نہ پیٹ میں ہو ، توپھر کچھ جتن نہ ہو۔ میلے کی سیر، خواہشِ باغ و چمن نہ ہو۔ بھوکے غریب دل کی، خدا سے لگن نہ ہو۔ سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو۔۔ اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں۔۔ ‘‘
سو جب عمران خان اقوامِ متحدہ میں بھارت کو اور دنیا کو ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے، اور اللہ رسول یاد دلا رہے تھے، اس سمے انہیں شاید قوم کے بھوک کے غم میں خدا کی طرف سے وہ ذمہ داری بھول گئیں جس میں ان کا کام بھوکی قوم کو فاقہ کشی سے بچانا ہے۔ قوم کو انہیں اللہ کا واسطہ دینا چاہیے کہ خدا کے لیے کشمیر ، امۃ ، اسلاموفوبیا کی ، ہانکیں لگانے کے بجائے عوام کی بہبود کی فکر کریں۔ قومیں دنیا کا مقابلہ جب ہی کر سکتی ہیں جب وہ معاشی طور پر مضبوط ہیں۔
جہاں تک معاشی بہبود کا معاملہ ہے تو کیا آپ نے پڑھا کہ اقوام متحدہ میں سرخروئی (جس میں تالیاں صرف اپنے ہی پیٹ رہے تھے)، کے بعد جب عمران خان واپس چلے تو ان کا طیارہ دو گھنٹے کے بعد تکنیکی خرابی کی وجہ سے نیو یورک، واپس پہنچ گیا۔ شاید آپ نے سوچا ہو کہ وہ قومی ایر لایئن ، پی آئی اے‘ کا طیارہ ہو۔ لیکن وہ تو ایک سعودی خصوصی طیارہ تھا، سعودی کیوں تھا یہ تو خان صاحب یا عسکری ہی بتایئں گے۔ پھر دوسرے روز وہ سعودی ایئر لایئن کی پرواز میں براستہ جدہ پاکستان واپس پہنچے۔ سعودی ہمارے سرکاری دورے میں کیوں شریک تھے، یہ تو سعودی یا عمران خان ہی جانیں۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کے خطاب پر، جس میں امۃ، کشمیر، اسلاموفوبیا، سب کا ملغوبہ تھا، سعودی عرب نے کوئی تعریفی بیان نہیں دیا۔ نہ سرکاری نہ غیر سرکاری۔ اور چلایئں آپ سعودی ولی عہد کی گاڑی۔ سعودیوں کے علاوہ اور بھی امتیوں نے دلاسا نہیں دیا۔ بس ترکی اور ملیشیا نے اتنا کہا کہ بھارت کو کشمیر میں ہاتھ ہولا رکھنا چاہیے۔ نہ کہ استصوابِ رائے یا کشمیر کی آزادی کی بات کرتے۔ وہ گاڑی تو کب کی نکل گئی۔ یعنی چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
ہم نے خان صاحب کی تقریر اور اس کا بین الاقوامی اثر آپ کو بتا دیا، اب قوم ،بقولِ امیر خسرو ، بیٹھی ڈھول بجاتی رہے۔
♦
One Comment