بیرسٹرحمید باشانی
ترقی یافتہ دنیا میں” زینوفوبیا” یعنی اجنبی لوگوں کا خوف بڑھ رہا ہے۔ بعض جگہوں پردن بدن وہ قوتیں مقبول ہورہی ہیں، جو خوداجنبی لوگوںکےخوف میں مبتلا ہیں اوردوسروں کو بھی اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عام لوگوں کوباہر سے آنے والےتارکین وطن سے ڈرا رہی ہیں۔ سماج میں خوف پھیلا رہی ہیں۔ یہ خوف پھیلانےمیں ان کوجوچھوٹی بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کہ پسماندہ اور غریب ممالک خصوصا ایشیا، افریکہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے رنگ دار نسل کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی طریقے سے ترقی یافتہ ممالک میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ان میں سے اکثر کی یہاں پہنچنے کی کہانی بڑی دردناک ہے۔
ان میں سے کچھ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انتہائی پرخطر اور دشوار گزارراستوں سے کئی ممالک کی سرحدیں عبورکرکے یہاں پہنچے۔ کچھ لوگ گولیوں کی بوچھاڑ میں رات کے اندھیرے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ممالک میں داخل ہوئے۔ کچھ ایسےبھی ہیں، جنہوں نےغیرمحفوظ اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں بھوکے پیاسے طویل سفر کیے ۔ یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر چلنے اور پر خطر مہم جوئی کرنے والوں کے پہلو بہ پہلوایسے خوش قسمت اور آسودہ حال لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو قانونی طریقے سے ویزے لیکر ان ممالک میں داخل ہوئے۔
چنانچہ اب مغرب کے کئی شہروں اور بازاروں، کھیتوں ، کھلیانوں، فیکٹریوں سے لیکر پارلیمان تک ہر جگہ کوئی نہ کوئی رنگ دار نسل کا شخص دکھائی دیتا ہے۔ اور کئی شہر ایسے بھی ہیں، جہاں کوئی سفید فام شخص کئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اب اس صورت حال کو بائیں بازو کے قدامت پسند اور نسل پرست لوگ اپنا تنگ نظر سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
وہ مقامی لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ آپ کے روزگار چھین رہے ہیں۔ اپ کی زمینیں اور جائدادیں خرید رہے ہیں، اورآہستہ آہستہ یہ پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔ یہ لوگ ان کے سامنے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ کردینے والے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں سفید فام لوگوں کےاندرایک مدت سے کم از کم بچے پیدا کرنے کا رحجان ہے۔ اور کچھ لوگ تو سرے سے بچے پیدا ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بعض جگہوں پرسفید فاموں کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے رحجان کی وجہ سے رنگ دار لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سفید فام اقلیت میں بدل جائیں گے۔
مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ رپورٹ گردش کر رہی ہے کہ سن 2045 تک امریکہ میں سفید فام لوگ اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اسی طرح دائیں بازو کے نسل پرست یورپ میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ افریقا کی آبادی میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد شمار کے مطابق سن2050تک بر اعظم افریکا کی آبادی دو اعشاریہ چار بلین ہو جائے گی۔ اور صدی کے آخر تک یہ تعداد چار بلین کو کراس کر جائے گی۔
پھر آپ چاہے کتنی دیواریں کھڑی کریں، تارکین وطن کو روکنے کی جتنے معا ہدے مرضی کرلیں، یہ لوگ کسی نہ کسی طرح شمال کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوں جائیں گے، اور بر اعظم یورپ سیاہ فام اکثریت کا براعظم بن جائے گا۔ چنانچہ یہ خوف پھیلا کردائیں بازو کے نسل پرست اور قوم پرست لوگ بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، عوام کی حمایت اور ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ چونکہ ان کو سماج میں جو جگہ اور مقبولیت ملی ہے، وہ نفرت کی وجہ سے مل رہی ہے اس لیے وہ بڑے منظم طریقے سے اس نفرت کو عام کرنے میں پوری طرح مصروف ہیں۔
دوسری طرف رنگ دار نسل کے تارکین وطن کے اندر بھی اس صورتحال کے خلاف ایک خاص قسم کا رد عمل اور رحجانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ۔ کچھ اس نفرت کے جواب میں نفرت کا درس دے رہے ہیں۔ کچھ محبت اور بھائی چارے کی بات کر رہے ہیں۔ چنانچہ ہر جگہ نسل، نسل پرستی، اور بین الانسلی تعلقات پر گفتگو ہو رہی ہے۔ مباحث ہو رہے ہیں۔ ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ اس باب میں تازہ ترین کتاب نیویارک یونیورسٹی میں جرنلزم کے پروفیسر سکیٹو مہتا نے لکھی ہے۔
” یہ زمین ہماری زمین ہے” نامی اس کتاب اس تارکین وطن اورنسل پرستی کےباب میں تخلیق ہونے والے لٹریچر میں ایک جان دار اضافہ ہے۔ پرو فیسر لکھتا ہے ” امریکہ پرمیں اپنےحق کا دعوی کرتا ہوں۔ یہ حق میں اپنے لیے ، اپنے بچوںاوراپنے پیاروں کے لیے مانگتا ہوں۔ ہم یہاں ہیں۔ ہم واپس نہیں جا رہے ہیں۔ ہم یہاں اپنے بچوں کو پرورش کررہے ہیں، یہ اب ہمارا ملک ہے۔ ہمیں کسی کواس کےنسل پرستانہ خوف پرکسی قسم کی کوئی یقین دھانی کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ اب ہمارا امریکہ ہے، اور ہم کسی حرامزادے کو یہ ہم سے واپس لینے کی اجازت نہیں دیں گے“۔
کتاب میں الفاظ اور لہجے کی سختی نمایاں ہے، اورپروفیسراس کو تسلیم کرتے ہوئےلکھتا ہے کہ یہ کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہو جانے پرغم وغصےکی حالت میں لکھی گئی ہے۔ پروفیسرکا خیال ہے کہ ہجرت کےعمل کومقامی طور پرغلط سمجھا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو اس کے درست تاریخی اور سماجی تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہجرت یا ترک وطن کے عمل کو گلوبل جسٹس یاعالمی انصاف کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ غریب ملکوں سےآنےوالےتارکین وطن قرض خواہ ہیں۔ وہ یہاں پراپنا وہ قرض وصول کرنے آئے ہیں، جو ترقی یافتہ دنیا نے چکانا ہے۔ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام ہماری یعنی رنگ دار نسلوں کی مقروض ہیں۔ انہوں نے نوآبادیاتی نظام کے تحت ہمارے ملکوں میں آکر لوٹ مار کی اور ہمارا سیاسی اورمعاشی مستقبل تباہ کردیا۔
تارکین وطن اپنا وطن اس لیے نہیں چھوڑتے کہ وہ نکمے اورسست لوگ ہیں۔ یا وہ اپنے وطن سے نفرت کرتے ہیں۔ یا وہ مغرب کو لوٹنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ وہ اپنا وطن اس لیے ترک کرتے ہیں کہ تاریخ کے بوجھ نے اسے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔
پروفیسرنوآبادیاتی تاریخ میں جھانک کر ان اسباب کا ذکر کرتا ہے، جس نے تیسری دنیا کے ملکوں کو برباد کر دیا۔ اس کے خیال میں نو آبادیاتی قوتوں کی لوٹ کھسوٹ، ماحولیاتی تبدیلی اور “کارپوریٹ گریڈ” یعنی لالچ نےغریب ملکوں کے لوگوں کو ہجرت پرمجبورکیا۔ صدیوں کی لوٹ اور تباہی نے ان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ان ملکوں میں آئیں جنہوں نے ان کے ملکوں میں گھس کر ان کوتخت و تارج کیا۔ ہمیں یہاں ہونے پرشرمندہ یا معذرت خواہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آج یہاں ہیں اس لیے کہ کل تم وہاں تھے۔
اجنبی کا خوف اورنفرت کی دیواروں کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ پروفیسرمایوسی کےاس اندھیرے میں امید کے کچھ چراغ بھی جلاتا ہے۔ وہ نیویارک شہر کو بطور ماڈل پیش کرتا ہے۔ جہاں تارکین وطن اورمقامی لوگ شیر شکر ہیں، یہاں رنگ داراورسفید فام لوگوں نے ایک دوسرے سے مل کر نئے سیاسی اورمعاشی امکانات پیدا کیے ہیں۔ اس شہر میں نسلی پرستی اور نسلی جھگڑےحیرت انگیزطورپرکم ہیں۔
یہ شہرکس قدرمحفوظ ہو گیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس شہرکو ہمیشہ تارکین وطن کی لہروں کا سامنا رہا ہے۔ اس شہر میں تارکین وطن اپنے خود کے کلچر ، زبان اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔
ایک طرف نیویارک شہرجیسےماڈل شہر ہیں۔ دوسری طرف ایسے شہروں اور قصبوں کی بھی کمی نہیں ہے، جہاں خوف اور نفرت ہے۔ مگر تارکین وطن جہاں ہیں ان کو ڈٹ جانا چاہیے۔ یہ زمین اب ہماری زمین ہے۔ اب ہم نے یہاں ہی جینا مرنا ہے۔ اب ہم یہاں سے کئی جانے والے نہیں۔ اس لیے ان لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہیےجوخوف پھیلا رہے ہیں۔ اور ان قوتوں کا ساتھ دینا چاہیےجونفرت کےخلاف ہیں، اور بھائی چارے اورنسلی ہم آہنگی پریقین رکھتے ہیں۔
♦